قائداعظم کا شہر کراچی، جہاں تعلیم، شعور، وسائل ہیں، جو پاکستان کا دل اور معاشی شہ رگ بھی ہے، یہ شہر ملک کے محصولات کا 70 فیصد فراہم کرتا ہے اور سندھ حکومت کو 90 فیصد کما کر دیتا ہے لیکن یہ شہر ہمیشہ حکمرانوں کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے۔ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ کراچی ہمیشہ حکمرانوں کی سفاکی کا شکار رہا ہے، یہ شہر حکمرانوں کی ضرورت تو پوری کرتا ہے مگر کوئی اس کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتا۔
کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا مگر پھر عالمی تناظر، دباؤ اور ضرورت کے تحت یہ شہر مقتل گاہ بن گیا۔ یہاں روزانہ درجنوں افراد قتل کردیئے جاتے تھے، پھر ایک وقت آیا کہ قتل کرنیوالے ہاتھ خاموش ہوگئے اور یہ نوید سنائی گئی کہ شہر میں امن قائم ہوگیا ہے، لاشیں گرنا بند ہوئیں تو کچھ عرصے بعد اس شہر کو اسٹریٹ کرائم کے بھوت نے اپنے پنجوں میں جکڑلیا۔
اس وقت کراچی کا کوئی حصہ، گلی محلہ، سڑک یا چوراہا لٹیروں سے محفوظ نہیں ہے، آپ کسی سنسان سڑک پر 2 منٹ سے زیادہ چلنے کا سوچ نہیں سکتے، دن کی روشی میں بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے، یہ لوٹ مار گلی، محلوں کی سطح پر پریشان کن حد تک پھیل گئی ہے، بڑھتی ہوئی بدامنی اور اسٹریٹ کرائمز کے باعث لوگوں کے احساس عدم تحفظ میں اضافہ ہورہا ہے۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ نے شہر میں اسٹریٹ کرائمز کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’کرائمز کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے، یہاں تک کہ وارداتوں میں سرکاری اسلحہ بھی استعمال ہوا ہے‘‘۔ کچھ واقعات میں خود پولیس اہلکار ملوث پائے گئے ہیں، نوعمر غیرمقامی لڑکے اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں ملوث ہیں، جن کی عمریں 14 سے 18 سال کے درمیان ہیں۔
ماضی میں بھی کراچی ایک منظم سازش کے تحت دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور اب جبکہ اسٹریٹ کرائمز اور جرائم میں اضافے کی خبریں روزانہ شائع اور نشر ہورہی ہیں تو لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا کراچی ایک بار پھر منظم جرائم کی آماجگاہ بننے جارہا ہے؟۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں اس شہر کی روشنیاں اگر کسی نے چھینی ہیں تو اس کی ذمہ دار سیاسی و مذہبی جماعتیں، ان کے عسکری ونگ اور حکمران طبقہ بھی ہے لیکن اس وقت شہر میں اسٹریٹ کرائم میں نہ کوئی سیاسی جماعت ملوث ہے اور نہ عسکری ونگ۔ اسٹریٹ کرائم وارداتوں میں ایک ایسا منظم گروہ سرگرم ہے جس کی شاخیں سندھ، بلوچستان اور پاکستان بھر میں پھیلی ہوئی ہیں، جو یہاں سے واردات کرنے کے بعد شہر چھوڑ جاتے ہیں۔
رواں سال میں اب تک مسلح ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں 15 سے زائد قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے، اس میں ہمارے ہر دل عزیز صحافی اطہر متین بھی شامل ہیں، انہیں نارتھ ناظم آباد فائیو اسٹار چورنگی کے قریب نشانہ بنایا گیا، بائیک پر سوار 2 لڑکوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی اور پھر پستول سے ایک فائر کیا جو مقتول کے سینے میں لگا اور وہ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔
شہر میں بڑھتی ہوئی اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں سندھ حکومت، محکمہ پولیس کیلئے لمحۂ فکریہ اور ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔
سیاسی اور سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم میں غیر مقامی افراد ملوث ہیں، چند روز قبل شہید ہونیوالے صحافی اطہر متین کے قاتل کی بلوچستان کے ضلع خضدار سے گرفتاری کی اطلاعات سے اس بات کو اور تقویت ملتی ہے، شہر کی سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ کراچی میں غیرمقامی پولیس اور غیرمقامی اسٹریٹ کرمنلز وارداتیں کررہے ہیں۔ جب تک کراچی میں اعلیٰ پولیس افسران اور اہلکار یہاں کے رہائشی نہیں ہوں گے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔
کراچی کا شہری پینے کے پانی کیلئے بورنگ بھی کھدوائے تو پولیس آجاتی ہے، منشیات کے اڈے، زمینوں پر قبضے، مسلح ڈکیتی، لوٹ مار پولیس کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں، شہر میں مسلح ڈکیتیوں، لوٹ مار اور اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا خاتمہ اور شہریوں کے تحفظ کے مسائل زبانی دعوؤں سے نہیں عملی اقدامات سے حل ہوں گے۔
سی پی ایل سی کے تازہ اور گزشتہ برس کے ریکارڈ کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت اسٹریٹ کرائمز کی شرح میں رواں برس مجموعی طور پر 40 فیصد اضافہ ہوا۔ سال 2021ء کے مقابلے میں رواں سال موٹر سائیکل کی چوری 50 فیصد، گاڑیوں کی چوری 14 فیصد اور موبائل فون چھیننے کی شرح 10 فیصد بڑھ گئی ہے۔ یکم جنوری سے 30 جنوری تک شہر میں موبائل چھننے کے 2499، موٹر سائیکل چوری کے 3908، موٹر سائیکل چھینے کے 419، کار چھننے اور چوری کے 200 واقعات پیش آئے۔
کراچی کی سڑکوں سے گزشتہ سال کم از کم 34 ہزار افراد سے موبائل چھینے گئے، اس کے علاوہ کئی ہزار ایسے لوگ بھی ہیں جو ان واقعات کی رپورٹ درج نہیں کراتے۔ پولیس ہی کے مطابق اسٹریٹ کرائمز کی 90 فیصد وارداتیں تھانے میں رپورٹ نہیں ہوتیں، صرف وہ وارداتیں رپورٹ ہوتی ہیں جن میں قانونی تقاضے پورے ہوتے ہوں، یا کوئی شخص مارا جائے یا زخمی ہوجائے، گاڑیوں سے ساؤنڈ سسٹم، بیک ویو مرر، بیٹری کی چوری اس شہر میں بہت عام بات ہے۔ اسٹریٹ کرائمز سے تنگ شہریوں نے اپنی حفاظت کیلئے پولیس پر انحصار کرنے کے بجائے خود ہی بندوبست کرنا شروع کردیا ہے۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کا کہنا ہےکہ ’’اسٹریٹ کرائم کے بڑھتے واقعات پر تشویش ہے، 12 ہزار جرائم پیشہ افراد پکڑے گئے، ان میں سے 7 ہزار 800 ملزمان ضمانتوں پر باہر آچکے ہیں‘‘۔ عدالتوں کو الزام دینے کی بجائے دیکھنا یہ ہے کہ گواہوں کو پیش کرنا اور ثبوت جمع کرنا پولیس کی انوسٹی گیشن ونگ کا کام ہے، جب ثبوت ہی ناکافی ہوں یا مجرموں کے ساتھ مل کر مک مکا کرلیا جائے تو پھر عدالتیں مجرموں کو رہا کرنے یا بری کرنے کے علاوہ کیا کرسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس میں رشوت لینے کا تناسب دیگر شہروں کے مقابلے میں کراچی پولیس 80 فیصد کے ساتھ سرفہرست ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ اس شرح میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔
یقیناً کراچی آپریشن کے بعد شہر میں سنگین نوعیت کے جرائم میں واضح کمی ہوئی ہے، لیکن تیزی سے بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم پولیس کیلئے ایک بڑے چیلنج کے طور پر موجود ہے، جب تک ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں ہوگا اور چھینے گئے موبائل فون کا دوبارہ استعمال بند نہیں ہوگا یہ وارداتیں روکنا ممکن نہیں۔ اسلام آباد اور لاہور کی طرح کراچی کو بھی ’’سیف سٹی‘‘ بنانے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ غیر مقامی پولیس اور افسران کی جگہ مقامی پولیس اور انتظامیہ کو ذمہ داریاں دینا بھی انتہائی ضروری ہے۔
اس وقت شہر جرائم کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، اس میں ہر قسم کے جرائم کھلے عام ہورہے ہیں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ان گھناؤنے جرائم کی طرف راغب ہورہی ہے۔ کراچی میں لوگ دن دہاڑے لٹ رہے ہیں۔ شہر میں جس طرح کرونا کی وبا پھیلی اسی طرح رہزنی اور لوٹ مار کی وباء بھی پھیلی ہوئی ہے۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا عفریت تھما تو اسٹریٹ کرائمز شہر کا سب سے بڑامسئلہ بن گئے۔ اسٹریٹ کرائمز اور گھروں میں ڈکیتیو ں کے درمیان خواتین سے زیادتی اور انہیں ہراساں کرنے کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں، ان وارداتوں کی وجہ سے شہریوں میں خوف و ہراس بڑھتا جارہا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے حکومت کہاں ہے؟، اس کے ادارے کہاں ہیں؟، انتظامیہ کہاں ہے؟، ہمارے سیکیورٹی ادارے کیا کررہے ہیں؟، پولیس کیا کررہی ہے؟، رینجرز کیا کررہی ہے؟، کیا کراچی کے 3 کروڑ شہریوں کا مقدر یہی ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنی قیمتی اشیاء اور جانیں لٹیروں پر قربان کرتے رہیں؟۔
from SAMAA https://ift.tt/l6Rts2H