الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ منگل کی صبح 10 بجے سنانے کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل کا دوران سماعت کہنا تھا کہ یہ فارن فنڈنگ نہیں ممنوعہ فنڈنگ کا معاملہ ہے۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا ممنوعہ فنڈنگ کی وضاحت کرتے ہوئے کہنا ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی کمپنی یا فرد جو کہ پاکستانی نہ ہو اس سے کوئی بھی سیاسی جماعت اگر پارٹی کے امور چلانے کیلئے فنڈز حاصل کرے تو یہ ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن ایکٹ 2017ء کی شق 204 اس بارے میں بڑی واضح ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر ایک ڈالر بھی ممنوعہ فنڈنگ کی مد میں آجائے تو الیکشن کمیشن کو یہ فنڈز ضبط کرنے کا اختیار ہے۔
مزید جانیے: فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا، الیکشن کمیشن
کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کی 204 سے 212 تک شقیں ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں ہی ہیں جبکہ الیکشن ایکٹ کی شق 215 اس بارے میں کہتی ہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت کی ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو جائے تو ای سی پی کے پاس اس جماعت کا انتخابی نشان واپس لینے کا اختیار ہے، جس کے بعد ایسی سیاسی جماعت جس پر ممنوعہ ذرائع سے حاصل فنڈز کا الزام ثابت ہوجائے تو اس جماعت کی رجسٹریشن بھی منسوخ ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی پاکستانی غیر ملک میں مقیم ہے اور وہ پاکستانی شہریت کو چھوڑ کر اس ملک کی شہریت اختیار کرچکا ہے، اگر وہ بھی پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو فنڈز دیتا ہے تو وہ بھی ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتی ہے۔
کنور دلشاد نے مزید بتایا کہ اگر الیکشن کمیشن چاہے تو ایسی جماعت کو کالعدم قرار دلوانے کیلئے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوا سکتا ہے۔
پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء واضح طور پر بتاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے نجی یا مقامی سرکاری اداروں کے ذریعے بیرون ملک سے امداد کا حصول سریع ممنوع ہے۔
پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس 2002ء کے چیپٹر 2 کے مطابق بیرونی حکومتوں، ملٹی نیشنل اور مقامی سرکاری و نجی کمپنیوں، فرموں، تجارت اور پیشہ ورانہ اداروں کے ذریعہ براہ راست یا بالواسطہ امداد کا حصول سریع ممنوع ہے اور اس طرح سے حاصل ہونیوالی کوئی بھی بیرونی امداد آرٹیکل 6 کے جزو 3 کے تحت ناجائز شمار ہوگی۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/v7knWLw
No comments:
Post a Comment