سازش کا بیانیہ، حقیقت یا فسانہ

سابق وزیراعظم عمران خان نیازی یہ دھمکی دیا کرتے تھے کہ اگر مجھے ہٹایا گیا تو میں زیادہ خطرناک ثابت ہوؤں گا اور عمران خان نے ثابت کیا کہ وہ وزیراعظم ہاؤس چھوڑنے کے بعد زیادہ خطرناک ہوگئے ہیں۔ عمران خان ایک سفارت کار کی جانب سے بھیجے گئے مراسلے کو بنیاد بناکر اسے سازش قرار دے رہے ہیں۔ وہ قوم کو اُکسا رہے ہیں کہ امریکا نے ان کیخلاف جو سازش تیار کی ہے، اُس میں ریاستی ادارے اور سیاستدان شامل ہیں۔

عمران خان بظاہر اپوزیشن کو نشانہ بنا رہے لیکن حقیقت میں وہ اداروں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ عمران خان کی برطرفی کے بعد سوشل میڈیا پر پاک فوج کے سربراہ اور عدلیہ کے معزز ججز کیخلاف منظم طریقے سے مہم چلائی جارہی ہے۔

سابق فوجی جنرل کی جعلی ویڈیوز کی مدد سے فوج اور قوم کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ پی ٹی آئی کے مظاہروں میں آرمی چیف اور سپریم کورٹ کے ججز کی تصاویں اُٹھاکر ان کیخلاف شرمناک نعرے لگائے گئے۔

فوج اور عوام میں تفریق پیدا کرنے کیلئے میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد ہارون اسلم سے منسوب فوج مخالف بیانات چلائے گئے جو کہ قومی سلامتی کیخلاف انتہائی خطرناک سازش ہے۔ اعجاز اعوان اور محمد ہارون اسلم نے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ان سے منسوب آڈیو بیان جعلی ہے، فوج میری شناخت اور پہلا پیار ہے، میں اس قسم کی پوسٹ نہیں کرسکتا‘۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی سوشل میڈیا پر ادارے اور سوسائٹی کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی مہم اور ملک کیخلاف پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے کا فوری طور پر نوٹس لیا۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق فارمیشن کمانڈرز نے مؤقف اپنایا ہےکہ پاکستان کی قومی سلامتی سب سے بڑھ کر مقدم ہے پاک فوج کوئی سمجھوتہ کیے بغیر ریاستی اداروں کےساتھ ہمیشہ کھڑی رہے گی۔ فارمیشن کمانڈرز نے آئین اور قانون کی سربلندی کیلئے عسکری قیادت کے فیصلوں پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا، آئین وقانون کی حکمرانی کیلئے عسکری قیادت کے بہترین فیصلوں پر ہر قیمت پر ساتھ ہیں۔

        فوج کے سربراہ اور عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم اس وقت شروع ہوئی جب عمران خان کو ان کے عہدے سے برطرف کیا گیا۔ وزیراعظم کی حیثیت سے ایک سفارتی خط کو جلوسوں اور پریس کانفرنس میں بار بار لہرانا اور عوام کو یہ بتانا کہ امریکا پاکستان کیخلاف سازش کررہا ہے مگر ادارے  خاموش ہیں۔ سوشل میڈیا پر فوج اور عدلیہ کیخلاف چلائی جانے والی مہم عوامی ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کی سلامتی اور اس کے اداروں کیخلاف انتہائی خطرناک سازش ہے۔

       پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس میں اہم انکشافات کرتے ہوئے قوم کو سفارتی خط کی حقیقت سے بھی آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے، ڈیمارش صرف سازش پر نہیں دیئے جاتے اور بھی وجوہات ہوتی ہیں‘‘۔ آئی ایس پی آر کی اس وضاحت کے بعد عمران خان کا یہ بیانیہ  اپنی موت آپ مرگیا کہ انہیں ایک سازش کے نتیجے میں ہٹایا گیا۔

عمران خان کو صرف یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی حکومت جن بیساکھیوں (اتحادیوں) پر قائم کی گئی تھی، جب ان کے اتحادی الگ ہوئے تو ان کی حکومت زمین بوس ہوگی۔ عمران خان کو یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی انا پرستی، گھمنڈ، ضد اور غرور کی وجہ سے اتحادی اور ممبر قومی اسمبلی نے ان سے علیحدگی اختیار کی، اگر وہ اتحادیوں سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرتے، اپنے ممبران قومی اسمبلی کو عزت دیتے تو شاید عمران خان اپنی آئینی مدت پورے کرلیتے۔

پاکستان کی تاریخ میں آج تک کوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا، محترمہ بے نظیر بھٹو کو دو بار اور نواز شریف کی حکومت کو تین بار گھر بھیجا گیا ہے، برطرفی کیخلاف سیاسی جماعتوں نے احتجاج اور مظاہرے بھی کئے مگر کسی نے بھی سرعام میڈیا اور پبلک کے سامنے فوج اور عدلیہ پر گھٹیا اور بے بنیاد الزمات نہیں لگائے جو پی ٹی آئی کے مظاہروں اور جلسوں میں دیکھنے میں آرہے ہیں۔

فوج اور عدلیہ پر الزام تراشی کرنے کی بجائے عمران خان کو اپنا احتساب کرنا چاہئے، اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کے ساتھ ایک مثالی اور تاریخی تعاون کیا تاکہ حکومت اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے، ملک ترقی کرسکے، غربت اور مہنگائی کا خاتمہ ہوسکے اور جمہوریت کا تسلسل جاری رہ سکے۔ ادارے ہر طرح سے حکومت کے ساتھ کھڑے تھے مگر وہ حکومت کو گرانے اور بچانے کے کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے تحریک عدم اعتماد سے خود کو غیر جانبدار رکھا، یہی بات عمران خان کو پریشان کررہی تھی۔

جیسے ہی اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی عمران خان نے اسے عالمی سازش قرار دیتے ہوئے اداروں اور سیاستدانوں کو نشانے پر لے لیا۔ عمران خان کو کہنا تھا کہ انہیں نومبر سے اس سازش کا پتہ تھا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے 5 ماہ تک اس سازش کے بارے میں پارلیمنٹ اور سیکیورٹی  اداروں کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا۔

عمران خان بنیادی طور پر انا پسند، ضدی ہیں وہ ساڑھے 3 سال اپنی اناپرستی، ضد اور تکبر کی آگ میں جلتے رہے، حکومتی امور سے زیادہ انتقام کا سوچتے رہے، خود کو امین اور دوسروں کو چور، ڈاکوں سمجھتے رہے، 5 سال پورے ہونے سے پہلے ہی 10 سال کی منصوبہ بندی کرنے لگے، اسی نفسیاتی کیفیت میں انہوں نے اداروں کے فیصلوں میں مداخلت شروع کردی، کبھی سپریم کورٹ کے ججز کیخلاف صدارتی ریفرنس بھیج دیا اور کبھی سیکیورٹی اداروں کے انتظامی امور میں مداخلت کی۔

مطلق العنانیت عمران حکومت کا سب سے افسوسناک پہلو تھا، وہ اختلافِ رائے کو دشمنی سمجھتے تھے، لہٰذا آزاد میڈیا کا گلا گھونٹا گیا، آزاد ججوں کیخلاف ریفرنس بنائے گئے، الیکشن کمیشن پر چڑھائی کی گئی اور سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کیا گیا۔ روزِ اول سے عمران خان کی سیاست کا تعلق دماغ سے نہیں بلکہ جذبات سے رہا ہے، یعنی ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر، نوے دن میں کرپشن ختم اور قوم کے لوٹے ہوئے اربوں روپے واپس لانے کے دعوے شامل تھے۔ انتقام کی آگ میں عمران خان نے اکثر سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا، نیب سے مقدمات بنوائے، مگر 3 سالوں میں ایک بھی کیس عدالت میں ثابت نہ کرسکے اور نہ ہی لوٹی ہوئی دولت کا ایک روپیہ بازیاب ہوسکا، اس کے برعکس معیشت تباہ ہوگئی، افراطِ زر اور بیروزگاری نے عوام کو دبوچ لیا، ریکارڈ قرضہ لیا گیا، کرپشن ختم کرنے کا سیاسی نعرہ لگانے والوں کے دور میں پاکستان بین الاقوامی کرپشن انڈیکس میں 16 درجے گر کر 140ویں نمبر پر آگیا۔

عمران خان اب مطالبہ کررہے ہیں کہ فوری طور پر انتخابات کرائے جائیں۔ عمران خان چاہتے تو جنوری اور فروری میں اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کرسکتے  تھے مگر کیونکہ عمران خان کو اقتدار سے بے پناہ محبت ہے لہٰذا وہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد آخری لمحہ تک اقتدار سے چمٹے رہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران خان تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد باعزت طریقے سے عہدے سے استعفیٰ دیتے اور ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرتے، یہی جمہوریت کی روایات اور حسن ہے۔ لیکن عمران خان وہ بگڑے ہوئے کھلاڑی ہیں جو کھیلتے ہیں اور نہ کھیلنے دیتے ہیں۔

عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوئی تو انہوں نے 14 دن کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے والی ایک واضح اور سادہ آئینی شق سے سرکشی کی اور پھر اجلاس بلایا تو اسے آخری دن تک لٹکایا اور آخری دن عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ تحریک ایک بیرونی سازش کا شاخسانہ ہے اور اپوزیشن میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کر رہی ہے، یعنی ستّر فیصد عوام اور ان کے نمائندے غدار قرار دیدیئے گئے۔ یہ آئین سے صریحاً انحراف تھا، جسے سپریم کورٹ نے آئین شکنی قرار دیا۔ عدالتِ عظمیٰ کے اس واضح فیصلے کے باوجود کپتان آئین شکنی کے رستے پر ڈٹ کے کھڑے رہے۔

نو اپریل کو تقریباً 12 گھنٹے تک ووٹنگ سے انکار کے نتیجے میں ریاست کی طاقت حرکت میں آئی، عدالتوں کے دروازے کھل گئے، پریزن وین پارلیمنٹ کے سامنے پہنچ گئی، رینجرز نے پوزیشن سنبھال لی، تب کہیں جاکر عمران خان نے خود کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے سامنے سرینڈر کیا، بالآخر عمران خان کا اقتدار 3 سال 7 ماہ اور 24 دن کے بعد انجام کو پہنچا۔

       عمران خان نے جو آئینی اور سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اُسے سپریم کورٹ نے دانشمندی اور مدبرانہ طریقے سے حل کیا۔ ان تمام واقعات میں اسٹیبلشمنٹ اور پاک فوج نے اہم کردار ادا کیا وہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے انتہائی مدبرانہ طریقے سے سپریم کورٹ کے آئینی اقدامات کا جائزہ لیتے رہے اور کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی۔

ترجمان پاک فوج جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے قوم کو پیغام دیا ہے کہ ’پاکستان کی بقاء صرف اور صرف جمہوریت میں ہے اور اس کا دفاع کرنا سب کا فرض ہے، انفرادی بھی اور اجتماعی بھی اور اس کی طاقت پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور مسلح افواج ہیں، جمہوریت نے ہی پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے‘۔ یقیناً ایک حقیقی جمہوریت ہی پاکستان کی ترقی اور بقا کی ضامن ہوتی ہے، عمران خان کے پیدا کردہ آئینی اور سیاسی بحران  میں پاک فوج کا جو مثالی کردار رہا اس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔



from SAMAA https://ift.tt/7AFXSxo

No comments:

Post a Comment

Main Post

Farmers seen fleeing Nebraska wildfire during harvest

Video shows tractors being overwhelmed by tall plumes of smoke as firefighters battled the blaze. from BBC News https://ift.tt/7hzLEgx