پاکستان میں پارلیمنٹ ہی سب سے کمزور کیوں؟

ایک صحتمند جمہوری ریاست چار بنیادی ستونوں یعنی مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور ذرائع ابلاغ (میڈیا) پر قائم ہوتی ہے۔ گویا یہ چار ستون ایک جمہوری ریاست کی بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر ان چار ستونوں میں سے ایک ستون بھی مضمحل ہوجائے تو ریاست کا مجموعی نظم تتر بتر ہو جاتا ہے۔ جمہوریت کے حقیقی معنی عوام کو، عوام کے ذریعے، عوام پر حکمرانی اور قانون سازی کا مکمل اور غیر مشروط حق دیا جائے، اس لئے مقننہ یعنی پارلیمنٹ کسی بھی جمہوری ریاست کا اولین ستون ہوتی ہے۔ اس ادارے میں ریاست کے ہر معزز شہری کا ایک ایسا نمائندہ موجود ہوتا ہے جسے عوام نے منتخب کیا ہوتا ہے۔

پارلیمنٹ ایک ایسا جمہوری ادارہ ہے جس میں عوامی رائے سے قانون سازی کی جاتی ہے، اس ادارے میں مختلف تعداد میں عوامی نمائندے موجود ہوتے ہیں جو اپنے اپنے حلقوں سے اپنے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یعنی پارلیمنٹ ہی ایک صحتمند جمہوری ریاست کی ترجمان ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں پارلیمنٹ اور آئین کو ہی سب سے کمزور ستون سمجھا جاتا ہے، آمریت اور غیر جمہوری قوتیں پارلیمنٹ اور آئین کو ہی نشانہ بناتی رہی ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال تو یہی دی جاسکتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے لیکر آج تک کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا، اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ منتخب حکومتوں کو روندتے ہوئے 3 بار مارشل لاء کی تلوار سے جمہوریت اور آئین کا قتل کیا گیا، مگر ایک بار بھی آئین کو توڑنے اور معطل کرنیوالے کو سزا نہ مل سکی۔ کیونکہ آرٹیکل 6 کے تحت سزا دینے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے اور جب جب منتخب وزیراعظم کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا، تب تب انصاف کے حصول کیلئے عدلیہ سے رجوع کیا گیا مگر وہاں سے بھی انصاف نہ مل سکا۔ ایک بار پھر دو روز قبل سپریم کورٹ کے ایک متنازع فیصلے کی وجہ سے جمہوریت اور آئین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پرویز الہٰی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیدی اور پرویز الہٰی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ قرار دیدیا۔ اس فیصلے پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے استفسار کیا ہے کہ عمران خان کا خط ’‘حلال’’اور شجاعت حسین کا ‘‘حرام’’، یہ کیسا انصاف ہے؟، سوال یہ ہے کہ فل کورٹ کیوں نہیں؟، ایک جیسے خط پر 2 الگ الگ فیصلے کیوں؟، عمران خان اور چوہدری شجاعت کے ایک ہی خط پر الگ الگ تشریح کیوں؟۔ جبکہ سپریم کورٹ بار کے صدر کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے۔

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جب نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کئے گئے اور آئین و جمہوریت کو پامال کیا گیا۔ جب عدالتوں کو انتہائی متنازع ایگزیکٹو اقدامات بشمول آئین کی تنسیخ یا معطلی پر اپنی مہر لگانے کیلئے استعمال کیا گیا۔ پاکستان بننے کے فوری بعد ہی چیف جسٹس محمد منیر نے قوم کو نظریہ ضرورت کا تحفہ دیکر عدالت کو متنازع بنادیا تھا اور پھر ایک آمر اور جابر حکمران جنرل ضیاء الحق نے سپریم کورٹ میں اپنے من پسند ججز کی مدد سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا، جسے آج ‘‘جوڈیشل قتل’’ کہا جاتا ہے۔

اس طرح کے چند ایک مقدمات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری عدالتیں حاکم وقت کی خوشنودی کیلئے کس طرح متنازع فیصلے سناتی رہی ہیں۔

گورنر جنرل غلام محمد نے 1954ء پہلی میں آئین ساز اسمبلی کو برطرف کر دیا تھا اور اس برطرفی کو اس وقت کے صدر مولوی تمیز الدین نے چیف کورٹ (موجودہ سندھ ہائیکورٹ) میں چیلنج کیا تھا۔ چیف کورٹ نے اسمبلی کی برطرفی کو کالعدم قرار دیدیا تھا تاہم جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں وفاقی عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر چیف کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکومت کی برطرفی برقرار رکھی تھی۔

عدلیہ کی آزادی کا دوسرا امتحان اُس وقت آیا جب عدالت عظمیٰ کو 1958ء کی مارشل لاء حکومت میں ریاست بمقابلہ ڈوسو اور دیگر کی قانونی حیثیت پر فیصلہ سنانے کیلئے کہا گیا۔ جسٹس منیر کی زیر سربراہی میں کام کرنیوالی عدالت نے ہانس کیلسن کے نظریہ ضرورت سے متاثر ہوکر فیصلہ دیا۔ لہٰذا جنرل ایوب کی جانب سے جاری کردہ قوانین / آرڈر 1958ء کے تحت نئی قانونی حکومت تشکیل دی گئی، جس سے عدالتوں سمیت تمام قانونی اداروں نے اپنی درستگی کا قانونی جواز حاصل کیا اور یوں عدالت کے فیصلے کو مستقبل میں فوجی مہم جوئی کیلئے ایک دعوت تصور کیا گیا۔

بیگم نصرت بھٹو بمقابلہ چیف آف آرمی اسٹاف اور فیڈریشن آف پاکستان۔ 1977ء میں ایک بار پھر فوجی بغاوت کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا، اس بار بھی عدالت نے ریاستی ضرورت اور عوام کی فلاح و بہبود کی بنیاد پر اسے جائز قرار دے دیا۔

حاجی سیف اللہ بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کیس 1989ء۔ سپریم کورٹ نے 1987ء میں اسمبلی کی تحلیل اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کو ہٹانے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا، چونکہ مقدمہ کی سنوائی میں اتنا طویل وقت لگایا گیا کہ اس دوران ایک نئی حکومت منتخب ہوچکی تھی، اس لئے عدالت نے تحلیل شدہ اسمبلی کو بحال نہیں کیا۔

سپریم کورٹ نے 1990ء اور 1996ء میں آئین کے آرٹیکل 58 (2) (بی) کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل اور اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی معزولی کو برقرار رکھا۔ تاہم 1993ء میں سپریم کورٹ نے تحلیل کے حکم کو ختم کرتے ہوئے نواز شریف کو بحال کردیا لیکن چند ہفتوں بعد ہی نواز شریف کی حکومت کو گھر بھیج دیا گیا۔ نواز شریف کی بحالی کے اس فیصلے کو بھی ‘‘سیاسی فیصلے’’ کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

جب جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کرکے مارشل لاء لگایا تب بھی عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے تحت پرویز مشرف کی بغاوت کو ‘‘حلال’’ قرار دیا۔ بغاوت کی توثیق کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ پر بیٹھے ججوں میں سے ایک جسٹس افتخار محمد چوہدری تھے جو بعد میں پاکستان کے چیف جسٹس بن گئے۔

سال 2007ء میں 3 نومبر کو پرویز مشرف نے پاکستان میں ایمرجنسی کا اعلان کیا اور آئین کو معطل کردیا تاہم سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے اس کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے متفقہ حکم نامہ جاری کیا، لیکن چند روز بعد 24 نومبر کو نو تشکیل شدہ سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے ایمرجنسی کے نفاذ اور پی سی او کے نفاذ کو درست قرار دیا، بینچ کی سربراہی چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے کی۔

عدلیہ اور ججز سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ذاتی عناد، خواہشات، پسند ناپسند سے بالکل عاری ہوکر غیر جذباتی انداز اور غیر جانبداری کے ساتھ طے شدہ قوانین و آئین کے مطابق فیصلے دیں گے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز سے یہ بھی امید لگائی جاتی ہے کہ جج کوئی سیاسی وابستگی نہ رکھتا ہو، کسی پارٹی سے اس کی ہمدردی نہ ہو، اس کا جھکاؤ کسی ایک گروہ کی جانب نہ ہو۔ یہ تو بارہا کہا جاتا ہے کہ عدلیہ کو غیر سیاسی ہونا چاہئے لیکن یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ عدلیہ کے اندر بھی سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ انصاف فراہم کرنے والے ادارے میں ججز کے درمیان بھی گروہ بندی اور لابنگ موجود ہے۔

اعلیٰ عدلیہ میں اندرونی سیاست کا ہونا یقیناً زیادہ گھمبیر صورتحال ہے، ججز کے درمیان باہمی چپقلش اور بینچ میں ساتھ نہ بٹھانا، ادارے کی ساکھ کیلئے نقصاندہ ہے۔ موجودہ حالات میں یہ صورتحال بہت زیادہ سنگین ہوچکی ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف سابق وزیراعظم اور سابق وزیر قانون سمیت ججز کے ایک گروپ کے درمیان اختلافات اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی، بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے ججز مختلف گروپس میں تقسیم ہیں۔

عدلیہ سیاسی مقدمات، آئین کی تشریح اور ایوان کی کارروائی میں اس قدر مصروف ہوچکی ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔ اگر سیاسی نوعیت کے مقدمات عدالتوں میں ایسے ہی آتے رہے اور مہینوں چلتے رہے، ججز کی تعیناتی میں التواء ہوتا رہا اور باہمی تناؤ کا یہ ہی ماحول رہا تو اعلیٰ عدلیہ سے عوام کو ریلیف اور انصاف ملنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 51 ہزار سے زیادہ مقدمات زیر التواء ہیں۔ جبکہ ماتحت عدالتوں میں اس سے زیادہ مقدمات فیصلوں کے منتظر ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق 2021ء کے آغاز میں سپریم کورٹ کے سامنے 46 ہزار 695 مقدمات زیر التواء تھے اور سال کے آخر تک یہ 51 ہزار 766 ہوگئے، جبکہ ہائی کورٹس میں بھی مقدمات کی بھرمار ہے اور کئی کئی سال پرانے مقدمات فیصلے کے منتظر ہیں۔ 31 دسمبر 2021ء تک پاکستان کی ہائی کورٹس میں زیر التواء مقدمات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں ایک لاکھ 87 ہزار 255 مقدمات زیر التواء تھے، سندھ ہائی کورٹ میں مجموعی طور پر زیر التوا مقدمات کی تعداد 84 ہزار سے زائد تھی۔ پشاور ہائی کورٹ میں 44 ہزار 703 مقدمات زیر التوا رہے، جبکہ اس وقت بلوچستان ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات 4 ہزار 108 ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں گزشتہ سال کے آخر تک زیر التواء مقدمات کی تعداد 17 ہزار 456 تھی۔

دوسری جانب ذیلی عدالتوں کی بات کی جائے تو پنجاب کی نچلی عدالتوں میں 13 لاکھ 13 ہزار 669 مقدمات فیصلوں کے منتظر ہیں، سندھ کی ضلعی عدلیہ میں 31 دسمبر تک زیر التواء کل مقدمات کی تعداد ایک لاکھ 17 ہزار 790 تھی۔ خیبر پختونخوا کی ماتحت عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 2 لاکھ 56 ہزار 873 ہے، بلوچستان کی ضلعی عدلیہ میں زیر سماعت مقدمات کی کُل تعداد 15 ہزار 675 رہی، جبکہ اسلام آباد کی نچلی عدالتوں میں مجموعی طور پر 50 ہزار 949 مقدمات التواء کا شکار ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق 31 دسمبر 2017ء تک دائر کئے گئے 88 ہزار 661 اور 30 اپریل تک ایک لاکھ 30 ہزار 327 پرانے مقدمات بالترتیب ملک کی 5 اعلیٰ عدالتوں اور ماتحت عدلیہ میں انصاف کی فراہمی کے منتظر ہیں۔



from Samaa - Latest News https://ift.tt/RTX4W9O

No comments:

Post a Comment

Main Post

Former US President Bill Clinton admitted to hospital with fever

The 42nd president is at a Washington DC hospital, and is in "good spirits", according to a spokesman. from BBC News https://ift...