سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں 14 اضلاع میں اتوار کو پولنگ ہوگی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ٹکٹ پر 4 ہندو امیدوار بھی میدان میں ہیں، جس کے باعث تاریخ میں پہلی بار پیپلزپارٹی کیلئے نیا چیلنج سامنے آیا ہے، سندھ کی حکمراں جماعت نے سکھر میں ہندو کمیونٹی کے کسی بھی شخص کو ٹکٹ جاری نہیں کیا۔
سال 2015ء کے بعد سال 2022ء میں ایک بار پھر سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا میدان سج رہا ہے، تاہم اس تمام تر عرصے میں صوبے اور صوبے کے عوام کی حالت تبدیل نہ ہوسکی اور نہ کوئی بہتری آئی، اس ناکام حکومتی انتظامات کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی اس بار بھی بڑے نمبروں کے ساتھ بلدیاتی انتخابات کیلئے میدان میں اتر رہی ہے، سندھ کے 20 اضلاع سے سال 2015ء میں کامیاب ہونیوالی پی پی اس بار بھی بڑے مارجن سے میدان مارنے کیلئے پُرامید ہے۔
معروف صحافی اور انتخابی عمل کے ماہر سمجھے جانیوالے عبدالجبار ناصر نے ہمیں بتایا کہ اس سے قبل سال 2015ء میں ہونیوالی بلدیاتی انتخابات 3 مراحل میں اکتوبر اور نومبر میں ہوئے تھے، اس سے قبل بلدیاتی انتخابات سال 2004ء اور 2001ء میں بھی ہوئے۔
سال 2015ء کے بعد سال 2022ء میں حکومت کو بلدیاتی انتخابات میں اتنا لمبا عرصہ کیوں لگا؟، جس پر عبدالجبار ناصر صاحب نے ہمیں بتایا کہ اگست 2020ء میں بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہوئی، آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق 2017ء کی مردم شماری کے بعد حلقہ بندی ضروری تھی، اپریل 2021ء تک مردم شماری کے سرکاری نتائج جاری نہ ہونے کا بہانہ بنایا گیا اور اس کے بعد مزید بہانے بنائے گئے، نومبر 2021ء میں الیکشن کمیشن نے حکومت سندھ کو 30 نومبر کا حتمی الٹی میٹم دیا کہ 30 نومبر تک قانون سازی نہیں کی تو ہم ایکٹ 2013ء کی حلقہ بندی کے مطابق صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرائیں گے۔ جس کے بعد مجبوری میں سندھ حکومت نے نومبر 2021ء میں بلدیاتی ترمیمی بل 2021ء اسمبلی سے منظور کیا، جو مختلف مراحل طے کرتے ہوئے دسمبر 2021ء میں قانون بن گیا۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندی کی اور پھر انتخابی شیڈول جاری کیا، جس پر عمل ہورہا ہے۔
مزید جانیے: سندھ کے 14 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کیلئے پولنگ اتوار کو ہوگی
سال 2015 اور سال 2022 کے بلدیاتی انتخابات میں کیا مختلف ہے؟، جس پر ان کا کہنا تھا کہ دراصل حکومتیں اختیارات کی منتقلی سے خوفزدہ ہوتی ہیں، یعنی ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی واہ واہ میں کمی آتی ہے، یہ ہمارا قومی المیہ ہے، چاروں صوبوں میں 2015ء کے بلدیاتی انتخابات سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ہوئے اور اس بار الیکشن کمیشن نے انتخابات پر مجبور کیا۔
سکھر سے تعلق رکھنے والے سماء کے رپورٹر ساحل جوگی کا کہنا ہے کہ 2015ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں سکھر سے پی پی کے ٹکٹ پر ارسلان شیخ کامیاب ہوئے تھے، ساحل جوگی کے مطابق یو سی کی سطح پر جے یو آئی ف کبھی بھی یہاں سے کامیاب نہیں ہوئی ہے۔
حالیہ صورتحال پر عبدالجبار ناصر نے تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ جہاں تک جیت کی بات ہے تو بظاہر حیدر آباد اور کراچی کے سوا باقی سب جگہ پیپلزپارٹی کی پوزیشن بہت مضبوط نظر آرہی ہے، ممکن ہے کہ میرپورخاص میں سید علی نواز شاہ اور بدین میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ٹف ٹائم دیں، باقی جگہ مقابلہ یک طرفہ نظر آرہا ہے۔
یہاں یہ بات بھی بتاتی چلوں کہ سال 2015ء میں ہونیوالی بلدیاتی انتخابات میں سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پہلی بار اپنا ووٹ ڈالا تھا، سندھ کی ڈویژن سکھر کو پاکستان پیپلزپارٹی کا اہم گڑھ سمجھا جاتا ہے، سال 2015ء کے بلدیاتی انتخابات کے دوران اس ڈویژن سے 1558 امیدوار میدان میں اترے تھے، جبکہ اس سال سکھر میونسپل کارپوریشن سمیت ضلع بھر میں 1697 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔
الیکشن کے حوالے سے سکھر ضلعی کو 4 کیٹیگری میں تقسیم کیا گیا ہے، سکھر سٹی کو میونسپل کارپوریشن، دیہی علاقوں کو ضلعی کونسل، تحصیل روہڑی اور پنوں عاقل کو میونسپل کمیٹیز جبکہ صالح پٹ، کندھرا اور باگڑجی کو ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔
سکھر میونسپل کارپوریشن 3 ٹاؤنز جئے شاہ، مکی شاہ اور نثار صدیقی پر مشتمل ہے، جس میں 32 یونین کمیٹیز قائم کی گئی ہیں، سکھر ضلع کونسل میں 42 یونین کونسلز بنائی گئی ہے۔
سکھر ڈیموگرافی
پاکستان میں سال 2017ء کی مردم شماری کے مطابق سکھر کی آبادی تقریباً 5 لاکھ 51 ہزار 357 سے زائد ظاہر کی گئی تھی، تقریباً 70 فیصد آبادی سندھی زبان بولتی ہے، جبکہ 20 فیصد آبادی مقامی طور پر اردو بولتی ہے، شہر کا تقریباً 96 فیصد حصہ مسلمان آبادی پر مشتمل ہے، جبکہ بقیہ 4 فیصد حصہ دیگر اقلیتوں پر مشتمل ہے، جس میں زیادہ تر ہندو کمیونٹی شامل ہے۔
سکھر میں ووٹوں کی تعداد
سکھر میونسپل کارپوریشن میں مجموعی طور پر 2 لاکھ 99 ہزار 412 رجسٹرڈ ووٹرز موجود ہیں، ضلعی کونسل کی سطح پر 8 لاکھ 7 ہزار 540 ووٹر موجود ہیں۔
اقلیتی ووٹ
سکھر ضلع میں اقلیتوں کے 20 ہزار سے زائد ووٹ ہیں، جبکہ مردم شماری 70 ہزار سے زائد ہے، میونسپل کمیٹیز کو میونسپل کارپوریشن اور ٹاؤن کمیٹیز کو ضلع کونسل سے منسلک کیا گیا ہے۔
اس سال 26 جون کو ہونیوالے سکھر کے بلدیاتی انتخابات میں اس وقت دلچسپ صورت حال دیکھنے میں آئی، جب انتہائی دائیں بازو کی جماعت تصور کی جانے والی جمعیت علمائے اسلام (ف) نے یہ تاثر زائل کرتے ہوئے سکھر سے بلدیاتی انتخابات کیلئے 4 اقلیتی برادری سے امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے۔
سکھر ضلع کی میونسپل کمیٹی پنوں عاقل 12 وارڈ پر مشتمل ہے۔ اس علاقے کو پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجا جاتا ہے مگر ایک لمبے عرصے تک ہندو کمیونٹی کو سہارا دینے والی پی پی نے اس بار بلدیاتی انتخابات میں کسی ہندو کو اس اہم وارڈ سے ٹکٹ نہیں دیا، بلکہ یہ اعزاز جے یو آئی ف کے حصے میں آیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے پنوں عاقل کے 12 وارڈ پر مسلم امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے گئے ہیں، جبکہ کسی ایک بھی ہندو کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔
جے یو آئی ف کی جانب سے نامزد چاروں اقلیتی امیدوار کو کتاب کے نشان پر نامزد کیا گیا ہے۔ اقلیتی برادری کی جانب سے نامزد ہونیوالے امیدوار پنوں عاقل وارڈ 2 پر ساگر کھتری، وارڈ نمبر 5 استاد پنجا رام، وارڈ نمبر 7 مکھی پہلاج رام اور وارڈ نمبر 9 گھنشام داس کھتری شامل ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان 4 نشستوں پر جے یو آئی ف اور پی پی پی میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے موقع پر اقلیتی کمیونٹی کی جانب سے دھرم شالا مندر میں جے یو آئی ف کے سیکریٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو کے اعزاز میں عشائیہ کا بھی اہتمام کیا گیا۔
مقامی صحافی انس کھتری سے جب ہماری اس سلسلے میں گفتگو ہوئی تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ اقلیتی برداری سے تعلق رکھنے والے روی کھتری پہلے بھی سال 2018ء میں جے یو آئی کے ٹکٹ پر مخصوص نشست پر الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں، تاہم سیٹیں کم ہونے کے باعث وہ منتخب نہ ہوسکے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میونسپل کمیونٹی پنوں عاقل میں اس دفعہ پی پی کی جانب سے ہندو کمیونٹی کے کسی بھی فرد کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔
جب ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ پی پی تو ہمیشہ سے ہندو برادری کو بہت سپورٹ کرتی آئی ہے اور ان بلدیاتی انتخابات میں 12 میں سے ایک وارڈ میں بھی ہندوؤں کو ٹکٹ نہیں دیا گیا؟، جس پر ان کا کہنا تھا کہ پی پی نے بااثر افراد کو ہی ٹکٹ دیا ہے، یہ لوگ سادہ ہوتے ہیں اور کسی بھی فیصلے پر آواز نہیں کھڑی کرتے ہیں۔
یہ ہی وجہ تھی کہ اقلیتی برداری نے جے یو آئی ف کی جانب دیکھا اور ان سے ملاقات میں یہ مسئلہ اٹھایا کہ ان کے اتنے ووٹ ہیں تو ٹکٹ انہیں بھی ملنا چاہئے، جس پر راشد سومرو کی جانب سے 12 میں سے 4 وارڈز پر ہندوؤں کو ٹکٹ جاری کئے گئے۔ اس طرح پنوں عاقل سے سوائے جے یو آئی ف کے کسی جماعت کی جانب سے ہندو امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا گیا ہے۔
سکھر میں پولنگ کی تیاریاں
سکھر میں پولنگ کے سامان کی تقسیم کا عمل تقریباً مکمل کرلیا گیا ہے، جبکہ پولنگ اسٹاف اور ریٹرننگ آفسز بھی وہاں موجود ہیں، ضلع میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے 647 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں، مردوں کیلئے 175 اور خواتین کیلئے 174 جب کہ 298 پولنگ اسٹیشن مشترکہ ہوں گے۔
ضلع بھر میں 2183 پولنگ بوتھ قائم کئے جائیں گے، خواتین کیلئے 1021 اور مردوں کیلئے 1162 پولنگ بوتھ رکھے گئے ہیں، سکھر ضلع میں 8 لاکھ 7 ہزار 72 سے زائد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/yQbAqat
No comments:
Post a Comment