ماہرین امراض پیٹ و جگر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چند دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بچوں میں نامعلوم ہیپاٹائٹس کے کیسز پائے جاسکتے ہیں لیکن چونکہ ہمارے ملک میں اس بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہوتی، اس لئے ایسے کیسز کی تصدیق یا تردید نہیں کی جاسکتی۔
لانسیٹ کی نئی تحقیق کے مطابق بچوں میں پوسٹ کوویڈ ہیپاٹائٹس ہورہا ہے، یعنی کرونا کی بیماری کے بعد بچوں کا جگر متاثر ہورہا ہے۔
آغا خان اسپتال کے جگر اور پیٹ کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر وسیم جعفری نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ ہیپاٹائٹس کی بہت سی وجوہات ہیں، اس میں وائرل ہیپاٹائٹس ہے، بہت سارے لوگوں کو جب بیکٹیریل انفیکشن ہوجاتے ہیں، لیور فنکشن ٹیسٹ آلٹر ہوجاتے ہیں، ہمارے ملک میں اینٹی بایوٹک کا غلط استعمال بھی ہیپاٹائٹس کا سبب بنتا ہے، مریض کی ہسٹری دیکھی جاتی اور انویسٹی گیٹ کیا جاتا ہے کہ آیا مریض دوائیں کون سی لے رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یورپ میں بچوں میں ہیپاٹائٹس کے کچھ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، اسے گلوبل پینڈیمک کہہ دینا ٹھیک نہیں ہے، ہمارے ہاں تو بہت پہلے سے یہ صورتحال ہے، آپ دنیا جہان کے ٹیسٹ کرلیں کچھ بھی نہیں آتا۔
ڈاکٹر وسیم جعفری نے کہا کہ پاکستان میں ڈاکٹر فوراً اینٹی بایوٹک لکھ دیتا ہے اور مریض بھی یہی چاہتا ہے وہ فوراً ٹھیک ہوجائے لیکن پہلے تشخیص تو کرلی جائے، کچھ ٹیسٹ کرلیے جائیں کہ مریض کو ہوا کیا ہے، امریکہ و یورپ میں بیماری کو انویسٹی گیٹ کیا جاتا ہے، وہاں سی ایم وی وائرس، ایپسٹین بار وائرس کا ٹیسٹ ہو رہا ہے، یہ ٹیسٹ یہاں بھی ہوسکتے ہیں لیکن کوئی کرتا نہیں ہے۔
ڈاکر وسیم جعفری کا کہنا تھا کہ وائرس تو پورے جسم میں ہوتے ہیں، کرونا وائرس پہلے ریسپائرٹری ٹریک سے شروع ہوا تھا بعد میں لیور فیلیئر کے بھی کئی کیسز ہوئے، اسی طرح کسی بھی وائرس کو لے لیجئے یہ لیور سمیت پورے جسم کے کسی بھی حصے پر اثر کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیلف میڈیکیشن ڈیزاسٹر ہے، پاکستان میں فارمیسی کی دکانیں تو دیکھیں کیا مذاق بنا رکھا ہے، کیسے دوائیں ملتی ہیں، کوئی بھی دوا لینے جائیں اور کہیں مجھے بخار ہے، فارمیسی پر موجود شخص بغیر کسی ڈاکٹری نسخے دوائیں دے دیتا ہے، بخار کی دوائیں سب سے زیادہ جگر کو متاثر کرتی ہیں، پیراسیٹامول کے جگر پر اثرات سب سے زیادہ ہیں۔
ڈاکٹر وسیم جعفری کا مزید کہنا ہے کہ اگر آپ کو پہلے سے ہیپاٹائٹس ہو اور آپ پیراسیٹامول کا کمبینیشن لے لیں تو یہ ایسے مریض کیلئے انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ پیراسیٹامول ہیپاٹائٹس کے مریض کیلئے انتہائی خطرناک ہے، بہت سارے مریض ایسے آتے ہیں، جن کے ٹیسٹ کے باوجود اینٹی بایوٹک اور پیراسیٹامول کی ہسٹری نہیں ملتی۔
آغا خان اسپتال کے جگر اور پیٹ کی بیماریوں کی ماہر ڈاکٹر سعید حامد نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ ہمارے پاس سرویلنس میکینزم نہیں ہے اور جب تک ٹھیک طریقے سے سرویلنس نہیں ہوگی تب تک پتہ نہیں چلے گا مسئلہ کیا ہے، مجھے یقین ہے پاکستان میں کچھ نہ کچھ کیسز ضرور ہوسکتے ہیں جو کہ ہماری نظر میں نہیں آتے اور وہ رپورٹ نہیں ہوتے۔
بچوں کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر آفتاب احمد نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یورپ، امریکا اور کینیڈا میں ہیپاٹائٹس کے ان ڈیفائن اوریجن کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، ان میں 2 قسم کی رائے پائی جاتی ہے، ان میں سے 70 فیصد بچے ان ڈیفائن اوریجن کے ہیں یعنی ان کا پتہ ہی نہیں تھا کہ ہیپاٹائٹس کیوں ہو رہا ہے، نہ کوئی انفیکشن تھا، نہ کوئی میڈیسن لی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ ایڈینو وائرس کی وجہ سے ہورہا ہے، ایڈینو وائرس عموماً بچوں میں آنکھوں، گلے اور پیشاب کی بیماری پیدا کرتا ہے، یہ بچوں میں زیادہ کامن ہے، اب جو کیسز آرہے ہیں تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایڈینو وائرس سے جگر کا انفیکشن ہورہا ہے، یہ ڈائریا اور الٹیاں تو کرتا ہی ہے، اس کے بعد یہ جگر کو بھی متاثر کرتا ہے۔
ڈاکٹر آفتاب کا کہنا ہے کہ ایک رجحان یہ بھی ہے کہ کوویڈ انفیکشن کی وجہ سے آٹو امیون سسٹم یعنی قوت مدافعت اپنے جسم کیخلاف لڑنا شروع کردے، اس وجہ سے بھی جگر کی سوزش یا کوویڈ ایسوسی ایٹڈ ہیپاٹائٹس کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ طبی جریدے لانسیٹ کی حالیہ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بچوں میں کوویڈ ایسوسی ایٹڈ ہیپاٹائٹس (سی اے ایچ سی) کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، جب جب کرونا وائرس کی لہریں آئیں تو ان دنوں ہیپاٹائٹس کے کیسز بڑھ گئے، اس رپورٹ میں یہ وجہ بتائی گئی ہے کہ جو کیسز رپورٹ ہوئے ان میں 40 فیصد ایسوسی ایشن کرونا وائر س کی تھی۔
ڈاکٹر آفتاب کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے اسپائیکس پروٹین اتنی امیونٹی بنادیتے ہیں، یہ اتنی اسٹرانگ ہوتی ہے کہ اس سے بھی جگر متاثر ہورہا ہے، یہی پروٹین ہیپاٹائٹس کو ٹریگر کر رہا ہے، اسی لئے بچوں میں کوویڈ ایسوسی ایٹیڈ ہیپاٹائٹس کہتے ہیں، جن بچوں میں کوویڈ کے اینٹی باڈیز زیادہ تھے ان میں ہیپاٹائٹس رپورٹ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں کرونا وباء کے دوران کاواساکی کے کیسز ہوئے تھے، لیکن پاکستان میں ریسرچ نہیں ہوتی، کوئی ان کیسز کو انویسٹی گیٹ ہی نہیں کرتا، تو اس لئے کیسز رپورٹ نہیں ہوتے یا کم رپورٹ ہوتے ہیں، اگر انڈیا میں پوسٹ کوویڈ ہیپاٹائٹس کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں تو پھر ہمارے ہاں بھی ہوں گے۔
ڈاکٹر آفتاب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں پوسٹ کوویڈ کے اثرات کا پتہ چل سکے، اگر بچے میں ہیپاٹائٹس اے، بی، سی اور ای نہیں ہے اور بچے نے کوئی دوائیں بھی نہیں لیں، کوئی ہسٹری بھی نہ ہو تو پھر یہی شک ہوتا ہے کہ بچے کو کرونا وائرس ہوا ہوگا، جس کی وجہ سے پوسٹ کوویڈ ہیپاٹائٹس ہوا ہے۔
from SAMAA https://ift.tt/aDjhPFX
No comments:
Post a Comment