
ناک کان اور حلق کی بیماریوں کے ماہرین نے کہا ہے کہ بھارت میں سالانہ 50 ہزار کوکلیئر امپلانٹ ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں صرف تین سے 400 امپلانٹ ہوپاتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ کوکلیئر امپلانٹ ڈیوائس کا مہنگا ہونا ہے۔
جناح اسپتال کے شعبہ ای این ٹی میں عالمی یوم سماعت کی مناسبت سے ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جناح سندھ میدیکل یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر طارق رفیع نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کوکلیئر امپلانٹ کی ڈیوائس کو سستا کیا جائے تاکہ سماعت سے محروم بچوں اور افراد کی سماعت بحال کی جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوکلیئر امپلانٹ پر تقریباً 20 لاکھ روپے کی لاگت آتی ہے، اتنا خرچ ہر کسی کیلئے برداشت کرنا ممکن نہیں، اگر سرکاری سطح پر پیسے مختص کئے جائیں تو غریب بچوں کی سماعت بحال کی جاسکتی ہے لیکن اتنے پیسوں میں کئی بچوں کا دیگر بیماریوں کا علاج ہو جاتا ہے، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈیوائس سستی کی جائیں۔
ناک کان حلق کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر عمر فاروق نے کہا کہ کوکلیئر ڈیوائس کی بڑے پیمانے پر پیداوار نہیں ہے کیونکہ یہ ہاتھوں سے تیار کی جاتی ہے اور ایک ڈیوائس کی تیاری میں 8 سے 16 دن لگ جاتے ہیں، اگر حکومت اس ضمن میں اقدامات کرے تو اس کی کم قیمت میں آسانی سے دستیابی ممکن ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ماہرین یہ آپریشن مفت سرانجام دینے کی خدمات پیش کر چکے ہیں لیکن ڈیوائس مہنگی ہونے کی وجہ سے غریب افراد یہ آپریشن کروانے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔
شعبہ ایج این ٹی کے سربراہ ڈاکٹر محمد رزاق ڈوگر نے کہا کہ جناح اسپتال کی شعبہ ای این ٹی کی او پی ڈی میں یومیہ 250 مریض آتے ہیں، جن میں سے 60 سے 70 مریض کان کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور ان مریضوں میں سے بھی 30 فیصد سماعت کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مریضوں میں 10 سے 1 فیصد بچے، 10 فیصد نوجوان اور 15 فیصد بڑی عمر کے افراد شامل ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نوجوانوں میں مستقل کانوں میں ہیڈ فون لگانے کی وجہ سے بھی سماعت کے مسائل بڑھ رہے ہیں، رات بھر ہیڈ فون لگا کر گانے سننا، موویز دیکھنا اور دن بھر ہیڈ فون لگائے رکھنے کے نتیجے میں انہیں سماعت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ڈاکٹر محمد رزاق کا کہنا تھا کہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے، ٹریفک کانسٹیبل یا شور میں کام کرنیوالے افراد کو بھی سماعت میں کمی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسے افراد گھر میں بھی اونچا سننے کے عادی ہوجاتے ہیں۔
from SAMAA https://ift.tt/fl6UKzd
No comments:
Post a Comment