مرگی عام بیماری ہےمگر اکثریت کومرض سےمتعلق علم نہیں،ماہرین

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مرگی کے علاج کا ایسا کوئی مرکز نہیں جہاں مرگی کی بیماری کی تمام تشخیصی اور جدید علاج کی سہولیات ایک چھت تلے میسر ہوں۔

مرگی کے مرض سے متعلق پائے جانے والے توہمات اور غلط فہمیوں کے سبب طلاق اور رشتےٹوٹنے اور شادیوں میں رکاوٹ کا سبب بھی بن رہا ہے، محبت کے عالمی دن کے موقع پر اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ مرگی کے مریض سے محبت کی جائے اور اسے درست تشخیص کے ساتھ علاج کی تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔

دماغی و اعصابی بیماریوں کے ماہر اور نیورولوجی ایویرنس اینڈ ریسرچ سوسائٹی ( نارف) کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبد المالک نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ مرگی دراصل ایک دماغی مرض ہے جو پاکستان میں کافی عام بیماری ہے، عوام کی اکثریت کو اس مرض سے متعلق علم نہیں ہے۔

دماغ میں جو الیکٹریکل کنڈکشن ہوتا ہے یا جو معلومات کا ٹرانسفر ہوتاہے اس الیکٹریکل کنڈکشن میں کو برقی خلل جسے شارٹ سرکٹ بھی کہہ سکتے ہیں، اور اس شارٹ سرکٹ کی وجہ سے انسانی دماغ وقتی طور پر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے ،

اس کیفیت کو دورہ کہا جاتا ہے ، یہ بعض اوقات دماغ کے ایک حصے میں ہوتا ہے اور محدود ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں پورے جسم میں جھٹکے آنا شروع ہوتے ہیں۔

اگر کسی کو ایک دفعہ دورہ آئے تو اسے مرگی کی بیماری نہیں کہتے ہیں اور اگر کسی کو ایک سے زیادہ دفعہ دورے آئیں اور اس کی کوئی وجہ نہ ہو، اسے مرگی کی بیماری کہتے ہیں، زیادہ تر یہ مرض قابل علاج ہے اور دوائوں کے نتیجے میں زیادہ تر مرض عام زندگی گزار سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مرگی کی بیماری کے علاج کا ایسا کوئی مرکز نہیں ہے جہاں اس بیماری کی تمام تشخیصی اور جدید علاج کی سہولیات ایک چھت تلے موجود ہوں، مرگی کی بیماری کے علاج کا اگر کوئی ایک آدھ مرکز موجود بھی ہے تو وہ محض او پی ڈی بیسڈ ہے جہاں مریض کو دوائیں تک نہیں ملتیں۔

ملک کے تمام بڑے شہروں میں ایسے مراکز کی ضرورت ہے، مرگی کے مرض کے کے ایسے مراکز ہونے چاہئیں جہاں تمام تشخیصی سہولیات، جدید علاج اور دوائیں ملتی ہوں، ہمارے ملک میں مرگی کے مریضوں کا علاج بھی نفسیاتی امراض کے ماہرین کر رہے ہیں حالانکہ یہ نفسیاتی بیماری نہیں ہے۔

ڈاکٹر عبد المالک کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ایک فیصد آبادی یعنی 20 سے 22 لاکھ افراد مرگی کا شکار ہیں، پاکستان میں بڑوں کے مقابلے میں بچے اس مرض کا زیادہ شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مرگی کے سب سے زیادہ مریض دیہی علاقوں سے ہیں، مرگی کے 27 اعشاریہ پانچ فیصد مریض دیہی اور دو اعشاریہ 9 فیصد شہری علاقوں میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں میں  کم شرح خواندگی اور تعلیم سے دوری کے سبب اسے بھوت، پریت ، جادو ٹونا یا آسیب سمجھ کر مرگی کا شکار فرد کو آئیسولیٹ کردیا جاتا ہے اور دوا نہ ملنے کے سبب یہ مرض شدت اختیار کرجاتا ہے۔

جادو یا آسیب سمجھ کر اسے عاملوں یا جن بھوت بھگانے والے بابوں کے حوالے کردیا جاتا ہے اور یوں ایک قابل علاج مرض بگڑ جاتا ہے ، یہ بالکل ایک قابل علاج مرض ہے جیسے دوسری بیماری کا علاج کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ بس اسٹاپ یا کسی عوامی مقامات پر اگر کسی کو مرگی کا دورہ پڑ جائے تو وہاں موجود افراد لاعلمی کے سبب فورا چپل سونگھاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چپل سونگھانے متاثرہ شخص کا دورہ ٹھیک ہوگیا، حالانکہ مرگی سے متاثرہ مریض کو پڑنے والا دورایک سے دو منٹ تک ہوتا ہے۔

اسی طرح مرگی کا دورہ پڑے تو مریض کے منہ میں کپڑا نہیں ٹھونسنا چاہیے، کپڑا ٹھونسنے سے سانس رک سکتی ہے اور موت واقع ہو سکتی ہے۔

ایسے موقع پر اس کے گلے کے گرد اسکارف یا ٹائی کو ڈھیلا کردیں، کروٹ کے بل لٹا دیں تاکہ زبان حلق میں نہ جائے، دورہ پڑنے کے بعد مریض بے ہوش ہوجاتا ہے اگر نہ ہو تو اسے فوری طور پر اسپتال کی ایمرجنسی میں لے کر جایا جائے۔

آغا خان اسپتال کے نیورولوجسٹ ڈاکٹر واسع شاکر نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ پاکستان میں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمیٹ پہننے کا رجحان کم ہے، حادثات کی صورت میں سر پر لگنے والی شدید چوٹ ترقی پذیر ممالک میں مرگی کے مرض کی وجہ بن سکتا ہے۔

دنیا بھر کے 65ملین سے زائد مرگی کے مریضوں کی بڑی تعداد ترقی پذیر ممالک خصوصاَ پاکستان میں پائی جاتی ہے اور بد قسمتی سے ان میں سے بھی 90فیصد سے زائد کو علاج کی سہولیات میسر نہیں ہیں حالانکہ مرگی ایک مکمل طور پر قابل علاج مرض ہے،دماغی و اعصابی امراض کے ماہر ڈاکٹر محمد واسع کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مرگی کا مرض انتہائی تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دماغی امراض کے ماہرین کی تعداد کم ہے۔

پاکستان میں ڈھائی ہزار کے لگ بھگ نیورولوجسٹ موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مرگی کے بیشتر مریضوں کو علاج معالجے کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے کیونکہ تربیت یافتہ نیورولوجسٹ ، اچھی اور جدید دوائیں اور بہتر اسپتالوں کی سہولت موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مرگی کا شکار خواتین سے شادی نہیں کی جاتی کیونکہ اسے بدنامی تصور کیا جاتا ہے اور بچوں کو اسکول سے نکال لیا جاتا ہے جو کہ سماجی تنہائی اور ڈپریشن کا باعث بنتا ہے جبکہ یہ قابل علاج مرض ہے،

ڈاکٹر واسع شاکر نے کہا کہ حکومت مرگی کی ادویات میں سبسڈی دے تاکہ  ادویات اور تشخیص  کی قیمتیں کم اور مریضوں کی پہنچ میں ہوں  تاکہ وہ اپنا اور اپنے پیاروں کا  بروقت علاج کروا سکیں۔

حکومت مرگی کی دوائوں کی دستیابی کو یقینی بنائے کیونکہ اگر دوا میسر نہ ہو تو مریض کا سارا توازن بگڑ جاتا ہے اور دوائوں کی عدم دستیابی کے سبب دو، تین سال کنٹرول رہنے والے دورے پھر دوبارہ شروع ہوجاتے ہیں،

انہوں نے کہا کہ مرگی کے مریضوں کا نہ صرف علاج کیا جائے بلکہ اُن کی ووکیشنل ٹریننگ کرکے معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنایا جائے، جو اپنی نجی زندگی کے ساتھ ملک کی بہتری میں بھی اپنا کردار ادا کرسکیں۔

خیال رہے کہ  دنیا بھر میں مرگی کا عالمی دن ہر سال فروری کے دوسرے پیر کو منایا جاتا ہے۔



from SAMAA https://ift.tt/IKH1ObY

No comments:

Post a Comment

Main Post

Zelensky says he hopes to end Ukraine war 'this year'

The Ukrainian president was speaking at a summit to mark the third anniversary of Russia's full-scale invasion. from BBC News https://...