پنجاب کی سیاست میں گزشتہ 3، 4 ماہ سے متعدد بھونچال آئے، یہ سلسلہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی قرار داد کے بعد شروع ہوا، جب اپنی وزارت عظمیٰ بچانے کیلئے انہوں نے پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور گورنر چوہدری محمد سرور کی قربانی دی۔
عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کیلئے اپنا امیدوار نامزد کیا، لیکن اس فیصلے کے بعد انہیں اپنے 25 ارکان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
ان منحرف ارکان نے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دیئے اور حمزہ شہباز نئے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔
معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا اور عدالت عظمیٰ نے منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے فیصلہ دیتے ہوئے حمزہ شہباز کو ٹرسٹی وزیراعلیٰ بنادیا۔
منحرف اراکین کے 20 حلقوں میں 17 جولائی کو ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان تحریک انصاف نے 15 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ایک بار پھر 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کیلئے صوبائی اسمبلی میں ووٹنگ کی گئی۔
تحریک انصاف کے نامزد امیدوار چوہدری پرویز الٰہی نے 186 ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے حریف مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کے مشترکہ امیدوار حمزہ شہباز شریف 179 ووٹ لے سکے، تاہم ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے چوہدری شجاعت حسین کے ایک خط کو بنیاد بنا کر ق لیگ کے 10 ووٹ مسترد کردیئے جس کے بعد یہ انتخاب بھی متنازعہ ہوگیا اور حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ قرار دیدیا گیا، انہوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا لیکن معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ تک جاپہنچا۔
سپریم کورٹ نے منگل (26 جولائی) کی رات اپنے فیصلے میں حمزہ شہباز کو ان کے عہدے سے برطرف کرکے چوہدری پرویز الٰہی کے 186 ووٹ بحال کرتے ہوئے انہیں وزیراعلیٰ پنجاب مقرر کردیا، اس طرح تخت پنجاب ایک بار پھر ن لیگ کے ہاتھ سے نکل کر تحریک انصاف کی جھولی میں آگرا۔
اس تمام صورتحال کے بعد یہ تو واضح ہے کہ عمران خان کی پوزیشن مضبوط ہوچکی ہے، اب خیبرپختونخوا، گلگلت بلتستان اور کشمیر کے علاوہ پنجاب میں بھی ان کی حکومت ہے اور وہ باآسانی وفاق کو عام انتخابات کی طرف لے جاسکتے ہیں۔
ضمنی انتخابات میں ناکامی اور وزارت اعلیٰ چھن جانے کو ن لیگ کیلئے آفٹر شاکس سے تعبیر کیا جارہا ہے، اور ان آفٹر شاکس کا سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی متنازعہ رولنگ کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل اور فیصلے کے بعد تک عمران خان کے خاموش رہنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ برس ستمبر اکتوبر میں جن طاقتور حلقوں سے ان کی ناراضی شروع ہوئی تھی اب وہ برف پگھلتی جارہی ہے اور دوسری جانب وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کے بیانات نے ان کے عام انتخابات کے مطالبے کی راہ مزید ہموار کردی ہے۔
ابھی یہ معاملات کھل کر واضح نہیں ہوئے تھے کہ آج وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک بیان دیا کہ پنجاب میں گورنر راج کی سمری پر کام شروع کردیا ہے اور مجھ پر پنجاب میں پابندی گورنر راج کے جواز کیلئے کافی ہے۔
اب ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کے پاس سب سے بڑا کارڈ مزاحمت ہے، اگر یہ وفاقی حکومت کے خلاف کوئی احتجاج یا مارچ کرتے ہیں اور پرویز الٰہی بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں تو ملک کا سب سے بڑا صوبہ عملاً مکمل بند ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وسائل کے ذریعے اسلام آباد کا رخ کریں لیکن دونوں صورتوں میں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی حالت ابتر ہوچکی ہے، انٹربینک میں آج ڈالر 237 روپے تک جاپہنچا ہے، ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے، وفاق اور پنجاب کے مابین سیاسی انتشار جنم لینے سے پہلے ہی دونوں اطراف سے مفاہمت کا راستہ اپنانا ہوگا، سیاسی تلخیوں کو کم کیا جائے، کیونکہ پنجاب اور وفاق کی کھینچا تانی سے عدم استحکام پیدا ہوگا اور ملک کا مجموعی نقصان ہوگا۔
تمام صورتحال کے بعد اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کے بارے میں سوچنا ہوگا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے عوام کے بہتر مستقبل کیلئے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/Fi4AhoG
No comments:
Post a Comment