انتخابات کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ بہت زیادہ متاثر کن نہیں رہی ہے، 75 سالہ تاریخ میں عوام کو صرف انتخابی اصلاحات نامی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا جو آج تک جاری ہے۔ اب تک ہونے والے کسی ایک بھی الیکشن کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں عوامی ‘حق رائے دہی’ سے ایوان بالا میں پہنچنے والے نمائندگان نے عوام کی حقیقی نمائندگی کی ہو۔
بات چاہے 1951ء میں ہونے والے پہلے صوبائی انتخابات کی ہو، یا 16 جون 2022ء کو کراچی کے حلقہ این اے 240 میں ہونیوالے ضمنی انتخاب کی، ان سب میں ووٹنگ کی شرح ایک اہم مسئلہ رہی ہے۔
سال 1951ء کے انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 30 فیصد سے بھی کم رہی۔ 1970ء میں ہونیوالے عام انتخابات کو نا صرف پاکستان کی تاریخ کے شفاف اور غیر جانبدار الیکشن قرار دیا جاتا ہے بلکہ اس الیکشن میں ووٹنگ کی شرح کا ریکارڈ بھی قائم ہوا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار 63 فیصد عوام ووٹ ڈالنے کیلئے گھروں سے باہر نکلے۔
تاہم، اس کے بعد ہونیوالے انتخابات میں ایک بار پھر ووٹنگ کی شرح میں کمی کا رجحان پیدا ہوا۔ 1988ء میں 43 فیصد، 1990ء میں 45 فیصد، 1993ء 40 فیصد، 1997ء میں 35 فیصد، 2002ء میں 41 فیصد، 2008ء میں 44 فیصد جبکہ 2013ء کے عام انتخابات میں ایک بار پھر ریکارڈ تعداد میں ووٹرز گھروں سے نکلے لیکن پھر بھی 1970ء کا ریکارڈ نہ ٹوٹ سکا۔
سال 2013ء کے الیکشن میں 55.02 فیصد لوگوں نے ووٹ کاسٹ کیا جو 80 کی دہائی کے بعد سب سے زیادہ شرح تھی تاہم 2018ء کے عام انتخابات میں اس شرح میں ایک بار پھر 3 فیصد کمی واقع ہوئی۔
گزشتہ ماہ کراچی کے حلقہ این اے 240 میں ہونیوالے ضمنی انتخاب میں ووٹر ٹرن آؤٹ 8.38 فیصد رہا، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اس حلقے سے کامیاب ہونے والے نمائندے کے پاس 91 فیصد سے زائد عوامی نمائندگی نہیں ہوگی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن ہر اس انتخاب کو کالعدم قرار دے دیتا ہے جہاں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے کم ہو لیکن این اے 240 میں تو مکمل ٹرن آؤٹ ہی 9 فیصد سے کم ہے تو کیا یہاں ہونیوالے ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار نہیں دیا جانا چاہئے۔
پاکستان میں عوام کی جانب سے اپنے حق رائے دہی کیلئے گھروں سے باہر نہ نکلنے کی وجوہات کیا ہیں؟، ہماری سیاسی جماعتیں کروڑوں روپے کی انتخابی سرگرمیوں کے باوجود عوام کو پولنگ اسٹیشنز تک لانے میں ناکام کیوں رہتی ہیں؟ جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں عوام مکمل جوش و خروش کے ساتھ اپنے اس بنیادی جمہوری حق کواستعمال کرتے ہیں۔
ان سوالات کے پیچھے پاکستان میں انتخابی مہم اور انتخابات کے دوران ہونے والے خون ریز فسادات کی ایک طویل کہانی ہے، جس کیلئے ایک علیحدہ مضمون درکار ہے۔
ایک جمہوری ملک کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے یہ ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ الیکشن کے روز ہم جمہوری عمل میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے حق رائے دہی استعمال کریں۔ کیونکہ ہر شہری کا ووٹ قوم کی امانت ہے، ہر ووٹ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ صوبے یا وفاق میں اگلے 5 سالوں کیلئے ایسے نمائندگان کو بھیجا جائے جنہیں ذاتی مفادات سے زیادہ عوامی مفادات عزیز ہوں۔
لیکن ہم اپنی اس اہم ذمہ داری سے چشم پوشی کرتے ہوئے پولنگ کے دن کو گھروں میں بیٹھ کر غیر اہم کاموں میں صرف کردیتے ہیں اور جب کرپٹ، بدعنوان اور جرائم پیشہ امیدوار ایم این اے یا ایم پی اے بن کر ہمارے سروں پر مسلط ہوتے ہیں تو پھر ہمارا انہیں غلط کہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
ووٹر ٹرن آؤٹ میں اضافے کیلئے عوام کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی کہ وہ اس حوالے سے کوئی ایسی قانون سازی کرے جس سے یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل ہوسکے۔
انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کے نمائندے جہاں بڑے بڑے دعوے اور وعدے کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہیں وہ مخالف امیدوار کو ضمانت ضبط ہونے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔ زرضمانت کیا ہے اور اس کے ضبط ہونے کے انتخابی نتائج پر اثرات؟ زرِضمانت بنیادی طور پر وہ طے شدہ رقم ہے جو کسی بھی امیدوار کو انتخابات میں حصہ لینے کے بطور ضمانت الیکشن کمیشن میں جمع کروانی ہوتی ہے، انتخاب ہارنے کی صورت میں یہ رقم بحق سرکار ضبط ہوجاتی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قواعد و ضوابط کے مطابق کسی بھی قومی یا صوبائی حلقے کے انتخاب میں حصہ لینے کیلئے ہر امیدوار کو قومی خزانے میں زرضمانت کے طور پر 30 ہزار روپے جمع کروانا لازم ہے، جبکہ بلدیاتی انتخابات میں ضمانت کی رقم کم رکھی گئی ہے۔
اس کے علاوہ انتخاب میں حصہ لینے والے امیدوار کیلئے مجموعی ووٹوں کا ایک چوتھائی یعنی 25 فیصد ووٹ حاصل کرنا لازمی قرار دیا گیا، بصورت دیگر اس امیدوار کی ضمانت ضبط ہوجائے گی۔
جون 16 کو کراچی کے حلقہ این اے 240 میں ہونیوالے ضمنی انتخاب میں بھی ٹرن آؤٹ انتہائی کم ہونے کی وجہ سے کامیاب امیدوار سمیت تمام امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئیں لیکن این اے 240 سے پہلے ایک نظر 2018 میں ہونیوالے عام انتخابات پر ڈالتے ہیں جس میں قومی اسمبلی کے 270 حلقوں میں 2870 امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئی تھیں۔
جن امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئیں ان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سمیت مختلف جماعتوں کے سربراہان بھی شامل تھے جبکہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے متعدد رہنما جیتنے کے باجود اپنی ضمانت ضبط کروابیٹھے۔
این اے 240 میں ہونیوالے ضمنی انتخاب میں 25 امیدواروں نے حصہ لیا۔ ایم کیو ایم پاکستان اور تحریک لبیک پاکستان کے امیدواروں کے درمیان آخر تک کانٹے دار مقابلہ ہوا اور آخری پولنگ اسٹیشن کے نتائج آنے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار ابوبکر صرف 64 ووٹوں سے فاتح قرار پائے، لیکن ووٹر ٹرن آؤٹ نہ ہونے کی وجہ سے سب کی ضمانتیں ضبط ہوئیں۔
اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5 لاکھ 29 ہزار855 ہے لیکن صرف 44 ہزار 388 افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جن میں 71 فیصد مرد اور 29 فیصد عورتیں شامل تھی۔ مجموعی طور پر اس حلقے میں ووٹنگ کی شرح محض 8.38 فیصد رہی اور الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق ضمنی انتخاب جیتنے والے ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار بھی 25 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی پر اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار نے 24.6 فیصد یعنی 10 ہزار 683 ووٹ حاصل کیے اور دوسرے نمبر پر آنے والے ٹی ایل پی کے امیدوار شہزاد شہباز نے 23.9 فیصد یعنی 10 ہزار 619 ووٹ حاصل کیے جبکہ مہاجر قومی موومنٹ کے رفیع الدین فیصل 8 ہزار 383 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔
اس حوالے سے جب ہم نے این اے 240 سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے امیدوار ابوبکر سے ووٹر ٹرن آؤٹ سے متعلق سوال کیا تو انہوں کہا کہ اول تو یہ ضمنی انتخاب چھٹی والے دن نہیں رکھا گیا اور انڈسٹریل ایریا ہونے کی وجہ سے یہاں کی 80 فیصد سے زائد آبادی فیکٹریوں میں ملازمت کرتی ہے یا پھر اپنا کاروبار کرتی ہے اور اس وقت معاشی حالات ایسے نہیں کہ کوئی بھی شخص ووٹ ڈالنے کیلئے کام کی چھٹی کرے البتہ سندھ حکومت کے ملازمین کو چھٹی دی گئی جو اس حلقے میں صرف 5 فیصد ہیں۔
ایم کیو ایم کے امیدوار نے ووٹر ٹرن آؤٹ کی دوسری وجہ سیکیورٹی مسائل کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ 12 بجے کے بعد حلقے میں افراتفری شروع ہوگئی تھی اور بہت سے پولنگ اسٹیشنز پر ہنگامہ آرائی ہوئی جو آن ریکارڈ ہے، جبکہ پولنگ کے دوران لاء اینڈ آرڈر کے حوالے سے کوئی انتطامات نہیں کیے گئے، ہر پولنگ اسٹیشن میں ایک دو پولیس والے یونیفارم میں موجود تھے اور سب جانتے ہیں عوام کے اندر پولیس کا کتنا خوف موجود ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی بھی انتخاب کو کالعدم قرار دینا اتنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ ایک انتخاب میں ہر امیدوار دو سے تین ہفتوں تک انتخابی مہم چلاتا ہے، جس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کیلئے بھی بار بار انتخابات کروانا آسان نہیں ہوتا، کیونکہ اس پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیدوار شہزادہ شہباز نے بھی عوام کے گھروں سے نہ نکلنے کی بنیادی وجہ ‘ورکنگ ڈے’ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں کی زیادہ تر آبادی مڈل کلاس ہے اور غربت کی وجہ سے کوئی ووٹ ڈالنے کیلئے چھٹی نہیں کرسکتا، اس کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے ماحول بھی خراب کیا ہوا تھا اور لوگ ڈر گئے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی درخواست بھی دی تھی لیکن وہ منظور نہیں کی گئی جبکہ ہمارے پاس تمام ثبوت موجود ہیں اور ہم اس معاملے کو الیکشن ٹریبونل میں لے کر جائیں گے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پورے پلان کے تحت ہمیں ہروایا گیا ہے اور ایم کیو ایم نے کرین کی مہر کے اوپر ٹھپے لگائے تاکہ ہمارے ووٹ مسترد ہوسکیں جبکہ درجنوں پولنگ اسٹیشن سے ہمارے ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا اور ہمیں نتیجہ تک نہیں دیا گیا۔
پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے امیدوار شبیر قائم خانی کا کہنا تھا کہ ضمنی انتخاب میں ویسے بھی کم لوگ باہر نکلتے ہیں لیکن یہاں تعداد کچھ زیادہ ہی کم ہوگئی، حالانکہ میں نے خود الیکشن کمیشن میں درخواست دی تھی کہ اس حلقے میں زیادہ تر فیکٹریوں میں کام کرنیوالے لوگ رہتے ہیں لہٰذا اس انتخاب کو چھٹی والے دن کروایا جائے لیکن ہماری درخواست نہیں سنی گئی اور کہا گیا کہ دن کم رہ گئے ہیں اس لئے اب ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کم ٹرن آؤٹ کا کریڈٹ تو کوئی بھی لے سکتا ہے کہ ایم کیو ایم لندن یا پھر پی ٹی آئی والے یہ کہیں کہ ہم نے بائیکاٹ کیا تو اس لئے لوگ بھی باہر نہیں نکلے جبکہ اس کے علاوہ اس دن گرمی بھی بہت تھی۔
شبیر قائم خانی نے الزام عائد کیا کہ 3 بجے کے بعد معاملات بھی خراب ہونا شروع ہوگئے تھے، ٹی ایل پی والوں نے فائرنگ شروع کردی، ایم کیو ایم والے بیلٹ باکس لے کر بھاگ گئے جس کی وجہ سے ووٹر خوفزدہ ہوگیا جب کہ ہمارے آفس پر بھی حملہ کیا گیا، چیئرمین مصطفیٰ کمال کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی اور ہمارا کارکن بھی شہید کیا گیا۔
ضمانت ضبط ہونے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ یہاں تو جیتنے والے نے بھی 10 ہزار 500 ووٹ لئے ہیں اور مجھے پتہ چلا کہ ان کی ضمانت بھی ضبط ہوگئی ہے تو ہارنے والے امیدوار کو تو چھوڑیں اور ویسے بھی جو لوگ کراچی میں کلین سوئپ کرتے تھے اور لاکھوں ووٹ لے جاتے تھے آج وہ 10 ہزار ووٹ لے کر جیت رہے ہیں جبکہ اس حلقے سے انہوں نے پچھلی بار 61 ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے۔
ضمنی انتخاب 2022ء
رجسٹرڈ ووٹ؛ 5 لاکھ 29 ہزار 855
ووٹ کاسٹ: 44 ہزار 388۔ 8.38 فیصد
مرد: 31 ہزار 677 ۔ 71.36 فیصد
خواتین : 12 ہزار 711 ۔ 28.63 فیصد
ایم کیو ایم : 10ہزار 683 ۔ 24.06 فیصد
ٹی ایل پی: شہزادہ شہباز 10 ہزار 619 ۔ 23.90 فیصد
مہاجر قومی موومنٹ: رفیع الدین فیصل 8 ہزار 383
پی پی پی : ناصر رحیم لودھی 5248
پی ایس پی : شبیر قائم خانی 4797
عام انتخابات 2018ء
ایم کیو ایم: اقبال محمد علی خان 61 ہزار 165
ٹی ایل پی : محمد آصف 30 ہزار 535
پی ٹی آئی : فرخ منظور 29 ہزار 941
ایم ایم اے : عبدالجمیل خان 19 ہزار 323
پی ایس پی: سید آصف حسنین 6 ہزار 661
ایم کیو ایم حقیقی : آفاق شفقت 14 ہزار 376
پاکستان پیپلز پہارٹی: محمد فیروز 7 ہزار 586
رجسٹرڈ ووٹ: 4 لاکھ 75 ہزار 523
ٹوٹل ووٹ کاسٹ: ایک لاکھ 74 ہزار 962
امیدوار: 16
اب ایک بار پھر ملک بھر میں سیاسی گہما گہمی ہے، پنجاب اسمبلی کے 20 حلقوں اور این اے 245 پر ضمنی انتخاب ہونے والا ہے جبکہ سندھ میں بھی دوسرے مرحلے میں بلدیاتی انتخابات کیلئے کراچی اور حیدر آباد کے 16 اضلاع میں پولنگ 24 جولائی کو ہوگی، دیکھتے ہیں کہ اس بار پولنگ ٹرن آؤٹ کیا رہتا ہے اور کتنے امیدوار اپنی ضمانتیں ضبط کرواتے ہیں۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/Rg8Tofu
No comments:
Post a Comment