پاکستان کا 24 سال بعد دورہ کرنے والی آسٹریلوی کرکٹ ٹیم نے لاہور ٹیسٹ میچ میں میزبان ٹیم کو 115رنز کے مارجن سے شکست دے کر 3 ٹیسٹ میچز کی سیریز 1-0 سے جیت لی اوراس کے ساتھ ہی افتتاحی رچی بینو عبدالقادر ٹرافی بھی اپنے نام کر لی۔اس اسٹیڈیم میں آسٹریلیا کی یہ دوسری فتح تھی۔
آسٹریلیا نے پاکستان کے خلاف لاہور کے اس اسٹیڈیم میں 1959 میں کھیلا جانے والا اولین ٹیسٹ میچ بھی سات وکٹوں سے جیتا تھا ۔ 1959 میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ بھی دوسری اننگز میں اسپنر لینڈسے کلن نے سات کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی تھی۔ اس فاتح کینگروز ٹیم کے فائد رچی بینو ہی تھے۔
اس طرح آسٹریلیا اس گرائونڈ پر 63 سال بعد ٹیسٹ میچ اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوا ۔ آسٹریلیا نے پاکستانی سرزمین پر آخری بار ٹیسٹ سیریز 24 سال قبل مارک ٹیلر کی قیادت میں 1998 میں 1-0 سے جیتی تھی ۔ پاکستان کو ہرانے کے بعد کینگروز کا اگلا ہدف سری لنکا اور بھارت ہیں جہاں وہ ٹیسٹ سیریز کھیلنے جائیں گے۔
لاہور ٹیسٹ میچ میں آسٹریلوی فاسٹ اور اسپن بولرز نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور وکٹ کو شاندار طریقے سے استعمال کرتے ہوئے پاکستانی بلے بازوں کو وکٹیں گنوانے پر مجبور کر دیا ۔ کپتان پیٹ کمنز نے مچل اسٹارک کے ساتھ ریورس سوئنگ کے فن کا غیر معمولی مظاہرہ کیا جبکہ ناتھن لیون نے سوئپسن کے ساتھ اپنی گھومتی ہوئی گیندوں کے ذریعے پاکستانی بلے بازوں کو بھی گھما دیا تھا۔
قذافی اسٹیڈیم پر کھیلے جانے اس ٹیسٹ میچ میں آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اوپنز عثمان خواجہ نے لاہورمیں بھی شائقین کرکٹ کو اپنے شاندار کھیل سے محظوظ کیا اور دلکش اسٹروکس کے ساتھ 91 رنزکی خوبصورت اننگزکھیلی ۔ وہ بدقسمتی سے سیریز میں دوسری مرتبہ نروس نائنٹیزکا شکارہوگئے۔ آسٹریلیا نے کمیرون گرین 73 ‘ اسٹون اسمتھ 59 ایلکس کیری 67 ٹریوس ہیڈ 26 رنزکی بدولت391 رنزبنائے۔ پاکستان کے فاسٹ بولرز شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ نے چار چار کھلاڑی آئوٹ کیے نسیم شاہ نے شاندار سوئنگ بولنگ سے حریف بلے بازوں کو پریشان کیا تھا۔
کراچی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں رنزوں کا انبار لگانے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹاپ آرڈر کی شاندار بیٹنگ کے باوجود آسٹریلوی کپتان کمنز اور مچل اسٹارک کی ریورس سوئنگ کے سامنے خزاں رسیدہ پتوں کی طرح ڈھیر ہو گئی۔ امام الحق 81 ‘ اظہر علی 78 ‘ بابر اعظم 67 رنز کی مدد سے پاکستان کا اسکور مرحلے پر 248 رنزچار کھلاڑی آئوٹ تھا لیکن اگلے چھ کھلاڑی صرف 20 رنز کا اضافہ کر کے پویلین لوٹ گئے۔
پاکستان کے آخری چار بلے باز ایک رن کا بھی اضافہ نہیں کرسکے اور چاروں وکٹیں 268 کے اسکور پر گریں ۔ کمنزکے پانچ اور اسٹارک نے چار کھلاڑی آئوٹ کیے ۔ پاکستان کی آخری پانچ وکٹیں صرف چاررنزکے اضافے پر گریں جو بدترین کارکردگی کا نیا ریکارڈ ہے اس سے قبل 2003 میں جنوبی افریقہ کے خلاف کیپ ٹائون ٹیسٹ کی پہلی اننگزمیں پاکستان کی آخری پانچ وکٹیں صرف پانچ رنز کے اضافے پر گری تھیں ۔لاہور ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں پاکستان کے نمبر 6 سے 11 کے بلے بازوں نے صرف چھ رنز کا اضافہ کیا جو بدترین کارکردگی کا نیا ریکارڈ ہے ۔ اس سے قبل آسٹریلیا ہی کے خلاف 2004 کے پرتھ ٹیسٹ میں6 سے 11 نمبرتک کے بلے بازوں کا کنٹری بیوشن 8رنزتھا۔
پہلی اننگزمیں 123 رنز کی سبقت حاصل کرنے کے بعد دوسری اننگزمیں بھی بہترین بیٹنگ کا مظاہرہ کیا ۔ عثمان خواجہ نے بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے سنچری داغ دی جس کی مدد سے کینگروز نے دوسری اننگز تین وکٹوں کے نقصان پر 227 رنزپر ڈیکلیئر کر دی تھی۔ عثمان خواجہ 104 رنزناٹ آئوٹ وارنر51 اور لبوشین 36 رنزنمایاں تھے۔ آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز نے اننگز ڈیکلیئر نے کا غیرمعمولی اور جرات مندانہ فیصلہ کیا جس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا کیونکہ میچ میں ابھی خاصا وقت باقی تھا اوروہ مزید اسکور کر سکتے تھے۔
کراچی ٹیسٹ کی دوسری اننگزمیں پاکستان کی اچھی بیٹنگ کومدنظررکھتے ہوئے یہ خاصا خطرناک فیصلہ دکھائی دے رہا تھا لیکن فاسٹ بولر پیٹ کمنز وکٹ کی صورت حال سے بخوبی واقف تھے اور انہوں نے جیت کیلئے بڑا رسک لیا تھا ۔ پاکستان کومیچ جیتنے کیلئے 351 رنزکا ٹارگٹ دیاگیا تھا جو تین رن فی اووربنتا تھا اوراس ٹارگٹ کوحاصل کرنا مشکل ضرور لیکن ناممکن نہیں تھا۔
چوتھے روزکھیل کے اختتام پر پاکستانی اوپنرز امام الحق اورعبداللہ شفیق نے 27 اوورز میں 73 رنزبنا کر کامیابی کی کرن دکھائی تھی ۔ پانچویں روز عبداللہ شفیق اپنے اسکور 27 میں کوئی اضافہ کیے بغیر گرین کا شکار بن گئے تھے۔ پہلی وکٹ کی شراکت میں 77رنز سے ٹیم کواچھا آغاز ملا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ پاکستانی بلے باز کراچی کی کارکردگی کو دہرا دیں گے۔
اظہر علی رنز پرلیون کووکٹ دے بیٹھے۔ اس کے بعد کپتان بابراعظم نے امام الحق کے ساتھ جیت کے جذبے سے تیسری وکٹ کی شراکت کو مستحکم کیا جب پاکستان کااسکور 142 پر پہنچا تو امام الحق 70 رنز پر ناتھن لیون کووکٹ دے بیٹھے۔ اس کے بعد دو وکٹیں تیزی سے گریں۔
فواد عالم 11 اور محمد رضوان بغیر کوئی کمنر کی ریورس سوئنگ گیندوں کو نہ سمجھ پائے اور دونوں ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔167 رنز پر نصف ٹیم پویلین لوٹ گئی تھی تاہم بابراعظم نے ساجد خان کے ساتھ مل کر ہدف کی جانب بڑھنے کی کوشش جاری رکھی اورچھٹی وکٹ کی شراکت میں 46 قیمتی رنزبنائے۔ 213 پربابراعظم کو اسمتھ نے لیون کی گیند پر خوبصورتی سے کیچ کر کے آسٹریلیا کی فتح کی راہ ہموارکر دی ۔ بابر نے55رنزبنائے۔ اسی اسکور پر ساجد خان کو مچل اسٹارک نے عثمان خواجہ کے ہاتھوں کیچ آئوٹ کروا دیا ۔ساجد نے 21رنزبنائے۔
لیون کی گھومتی ہوئی گیندوں کوکھیلنا بہت مشکل ہو رہا تھا اورکمنز بھی پرانی گیند کو ریورس سوئنگ کررہے تھے۔ باقی ماندہ تین کھلاڑیوں آئوٹ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگیاور وہ مزید 22 رنزکا اضافہ کر سکے۔حسن علی نے 13 شاہین آفریدی پانچ اورنسیم شاہ ایک رن بنا پائے ۔ لیون نے 83رنزکے عوض پانچ اور کمنز نے تین کھلاڑی آئوٹ کرکے آسٹریلیا کو پاکستانی سرزمین پر ٹیسٹ سیریزجتوانے میں مرکزی کردار ادا کیا ۔ شاندار بولنگ کارکردگی پر کپتان پیٹ کمنز کو پلیئرآف دی میچ اور عثمان خواجہ کو پلیئرآف دی سیریز قرار دیا گیا۔
ٹیسٹ کرکٹ میں یہ 10 واں موقع تھا کہ کسی ٹیم کی آخری چار وکٹیں کسی رن کے اضافے کے بغیر گر گئیں۔ اس سے قبل پاکستانی ٹیم کے آخری چار کھلاڑی انگلینڈ کیخلاف 1967 کے ٹرینٹ برج ٹیسٹ میں کسی رن کا اضافہ کیے بغیر پویلین لوٹ گئے تھے۔
پاکستان کااسکور 140 رنزچھ کھلاڑی آئوٹ تھا اور پھر پوری ٹیم اسی اسکور پر ڈھیر ہوگئی تھی۔کمنز نے پہلی اننگزمیں 56رنزکے عوض پانچ کھلاڑیوں کو شکار کیا تھا اور وہ پاکستانی سرزمین پر ایک اننگز میں نصف ٹیم کو شکار کرنے والے چوتھے آسٹریلوی فاسٹ بولر بن گئے۔
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم چھ سال بعد بیرون ملک کوئی ٹیسٹ سیریز جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ کینگروز نے 2016 میں نیوزی لینڈ میں کیویز کے خلاف دو ٹیسٹ میچز کی سیریز 2-0 سے جیتی تھی۔ اس کے بعد آسٹریلیا نے سری لنکا‘ بھارت ‘بنگلہ دیشن ‘ جنوبی افریقہ ‘ پاکستان اور انگلینڈ کے دورے کیے ۔ ان دوروں میں آسٹریلیا نے ٹیسٹ میچز توجیتے لیکن اسے سیریز میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔
آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کے مابین تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز 1-1 سے برابر ہوئی تھی ۔ انگلش سزمین پر انگلینڈ کے خلاف پانچ ٹیسٹ میچز کی روایتی ایشز سیریز بھی 2-2 سے برابری پر منتج ہوئی تھی۔ ایشیا میں کینگروز نے آخری بار ٹیسٹ سیریز اگست 2011 میں سری لنکا کے خلاف 1-0 سے جیتی تھی۔ اس سیریز میں آسٹریلوی ٹیم کے قائد مائیکل کلارک تھے۔
کینگروزنے 2016 کے بعد بیرون ملک 23 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے کینگروز کو چھ میں کامیابی نصب ہوئی اور12 میں شکست کا منہ دیکھا پڑا ۔ پانچ میچز ڈراہوئے۔
پیٹ کمنز پاکستانی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز جیتنے والے تیسرے کپتان ہیں اوراب وہ رچی بینو اور مارک ٹیلر کے ہم پلہ ہو گئے ۔ رچی بینو نے 1959 اور مارک ٹیلر نے 1998 میں پاکستان کو اس کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز میں شکست دی تھی ۔ اگر پیٹ کمنز کراچی ٹیسٹ میں پاکستان کو فالو آن کرنے کے بعد خود بیٹنگ نہ کرتے اور پاکستان کو دوسری اننگز کھیلنے کی دعوت دیتے تو ممکنہ طور پرکامیابی ان کے نام ہوتی کیونکہ پاکستانی ٹیم پہلی اننگز میں معمولی اسکور پر آئوٹ ہونے کی وجہ سے دبائو میں کھیلتی ۔
اس کے باوجود اگر بابر اعظم کے دو کیچ اسٹیو اسمتھ جیسے بہترین فیلڈر کے ہاتھوں سے ڈراپ نہ ہوتے تو بھی میچ کا نقشہ مختلف ہو سکتا تھا۔
پیٹ کمنز کی زیرقادت آسٹریلوی کرکٹ ٹیم نے دو ٹیسٹ سیریز کھیلیں اور دونوں میں آسٹریلیا فاتح رہا ۔ پیٹ کمنز اپنے ابتدائی آٹھ ٹیسٹ میچز میں ناقابل شکست ہیں۔ ان کی زیر قیادت آسٹریلیا نے ہوم گرائونڈ پر پانچ ٹیسٹ کی ایشزسیریز میں انگلینڈ کو 4-0 سے آئوٹ کلاس کر دیا تھا اور پاکستان میں تین ٹیسٹ میچز کی حالیہ سیریز بھی 1-0 سے جیتی ۔ ان دونوں سیریز میں پیٹ کمنز نے شاندار بولنگ کا مظاہرہ کیا۔ لاہور ٹیسٹ میچ میں بھی ان کا کلیدی کردار رہا ۔
آسٹریلویلوی اوپنر عثمان خواجہ نے انگلینڈ کے خلاف بھی سیریزمیں شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کیا تھا ۔ انہوں نے اپنے آبائی ملک پاکستان میں بھی بہترین کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھا ۔ انہوں نے دو سنچریوں اور دو نصف سنچریوں کی مدد سے 496 رنزبنائے ۔ وہ راولپنڈی اور کراچی میں دو مرتبہ نروس نائنٹیزکا شکار ہوئے۔ یہ پاکستان کا دورہ کرنے والے کسی بھی اوپنر کا تین ٹیسٹ میچز کی سیریز میں دوسرا بثڑا مجموعہ ہے آسٹریلیا کے سابق کپتان اور جارح بلے باز مارک ٹیلر نے 1998 کے دورہ پاکستان میں 519 رنزبنائے تھے۔
پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیسٹ سیریز مجموعی طور پر بولرز کیلئے بدترین ثابت ہوئی جن کو ایک وکٹ حاصل کرنے کیلئے اوسطاً 102.9 گیندیں کروانا پڑیں جو 2011 کے بعد تھری پلس ٹیسٹ سیریزمیں بدترین کارکردگی ہے ۔ دونوں ٹیموں کے بولرز نے 71 کھلاڑی شکار کیے اور انہوں نے فی وکٹ 48.47 رنز دیئے جو بدترین اوسط ہے۔
ایشیائی ملکوں میں ٹیسٹ سیریز میں 2008 کے بعد سے آسٹریلیا کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ کینگروز اس دورانیے میں 29 ٹیسٹ میں سے صرف چار جیت سکے جبکہ 17 میں شکست ان کا مقدر بنی اور آٹھ ٹیسٹ میچ ڈرا ہوئے۔ ایشیائی سرزمین پر کھیلی جانے والی 10 ٹیسٹ سیریز میں سے صرف دو ٹیسٹ سیریز آسٹریلیا کے نام رہیں اور سات حریف ٹیمیں فاتح رہیں ایک سیریز ڈرا ہوئی ۔
پاکستان کو ہوم سیریز میں 1-0 سے شکست سے دینے کے بعد کینگروز کا رواں سال ایشیائی ٹیموں کے ہی مدمقابل ہوں گے۔ آسٹریلوی کرکٹ ٹیم سری لنکا اور بھارت کا دورہ کرے گی ۔ آسٹریلیا نے جون جولائی میں سری لنکا کے خلاف دو ٹیسٹ میچز کھیلے گا جبکہ افغانستان اور آسٹریلیا کے مابین ایک ٹیسٹ میچ کی میزبانی بھی بھارت کرے گا ۔ اس کے بعد کینگروز بھارت کے خلاف چار ٹیسٹ میچز کی سیریز کھیلیں گے۔
پاکستان کو اس کی سرزمین پرزیر کرنے کے بعد کمنز الیون کیلئے سری لنکا اور بھارت بڑا چیلنج ہوں گے کیونکہ ان دونوں ملکوں کی وکٹیں بھی اسپن بولرز کی جنت ہیں ۔ آسٹریلیا کیلئے اصل چیلنج بھارتی کرکٹ ٹیم ہو گی جو 2013 کے بعد سے ہوم گرائونڈ پر ناقابل شکست ہے اور اس نے مسلسل 15 ٹیسٹ سیریز جیت کر ریکارڈ قائم کر رکھا ہے۔ بھارت کو آخری بار 2012 م یں الیسٹر کک کی زیر قیادت انگلش کرکٹ ٹیم نے چار ٹیسٹ میچز کی سیریز میں 2-1 سے شکست دی تھی جس میں انگلش اسپنرز گریم سوان اور مونٹی پینیسر کی شاندار بولنگ نے مرکزی کردا ادا کیا تھا ۔ الیسٹر کک نے بھی تین سنچریوں کی مدد سے رنزوں کا انبار لگا دیا تھا ۔
بھارتی ٹیم ویسے بھی گھرمیں شیر کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے۔ اس دوران آسٹریلیا میں بارڈر گواسکر ٹرافی کیلئے بھارت میں چار چارٹیسٹ میچز کی دو سیریز کھیلی تھیں جن میں بھارت 2012-13 میں 4-0 اور 2016-17 میں 2-1 سے فاتح تھا ۔ اس دورانیے میں بھارت نے مجموعی طور پر 42 ٹیسٹ کھیلے جس میں سے بھارت نے 32 ٹیسٹ جیتے اور صرف دو میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا ۔
اسٹیو اسمتھ نے لاہور میں اپنے 85 ویں ٹیسٹ میچ کی دوسری اننگز میں 8 ہزار ٹیسٹ رنز مکمل کیے۔ وہ یہ سنگ میل عبور کرنے والے آسٹریلیا کے 7ویں اور دنیا کے 33 ویں کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے 151ویں اننگز میں یہ ہدف حاصل کیا اور سب سے تیز رفتاری سے 8 ہزار رنز مکمل کرنے کا عالمی ریکارڈ ان کے نام سے جڑ گیا۔ یہ ریکارڈ پہلے سری لنکا کے کمار سنگا کارا کے نام تھا جنہوں نے 91 ٹیسٹ کی 152 ویں اننگز میں 8000 رنز مکمل کیے تھے۔ اب تک آسٹریلیا اور انگلینڈ کے 7، 7 ، بھارت کے 6، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے 4، 4، پاکستان کے 3 اور سری لنکا کے 2 بلے باز ٹیسٹ کرکٹ میں 8 ہزار یا زائد رنز اسکور کر چکے ہیں۔
قذافی اسٹیڈیم میں پہلی اننگز میں پاکستان کے اظہر علی نے ٹیسٹ کیریئر کے 7 ہزار رنز مکمل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ ان کی 94ویں ٹیسٹ کی 173 ویں اننگز تھی ۔ اظہر یہ سنگ میل عبور کرنے والے پاکستان کے 5 ویں اور دنیا کے 54ویں بلے باز ہیں ۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے 12، 12 کھلاڑی ، ویسٹ انڈیز کے 8، بھارت کے 7، جنوبی افریقہ اور پاکستان کے 5، 5 نیوزی لینڈ کے 3 اور سری لنکا کے 2 کھلاڑی ٹیسٹ کرکٹ میں 7 ہزار یا زائد رنزبنا چکے ہیں۔ سات ہزار یا زائد رنز بنانے والے دیگر پاکستانی بلے بازوں میں یونس خان‘ جاوید میانداد‘ انضمام الحق اور محمد یوسف شامل ہیں۔
from SAMAA https://ift.tt/YVdqCi6
No comments:
Post a Comment