وزیراعظم عمران خان نے استعفیٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آخری وقت تک مقابلہ کروں گا، کہتے ہیں کہ پاکستان ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے، سیاست میں ایک نظریے اور مقصد کیلئے آیا، مجھے کہا گیا استعفیٰ دے دیں، اتوار کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی، ملک کا فیصلہ ہوگا، نتیجہ جو بھی ہو مزید طاقتور بن کر آؤں گا، زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی، چاہتا ہوں قوم دیکھے کون جاکر اپنا ضمیر بیچتا ہے، کوئی خوش فہمی میں نہ رہے کہ عمران خان خاموش بیٹھے گا۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاکستانیوں میں آج اپنے دل کی باتیں کروں گا، پاکستان ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے، دو راستیں ہمارے سامنے ہیں جس میں سے ایک کا فیصلہ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ میری طرح کا آدمی سیاست میں کیوں آیا، اگر سیاستدانوں کی زندگی دیکھیں تو ان کو سیاست سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا، بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے سیاست سے پہلے کوئی کامیابی حاصل کی ہو، قائداعظم محمد علی جناح بہت بڑے سیاستدان تھے، وہ پورے ہندوستان میں بڑے وکیل سمجھے جاتے تھے، ان کی سیاست میں آنے سے پہلے ایک حیثیت تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ زیادہ تر لوگوں کو دیکھیں تو سیاست سے پہلے کوئی ان کا نام بھی نہیں جانتا تھا، میں خوش قسمت انسان ہوں، اللہ کا خاص شکر ادا کرتا ہو، مجھے اس نے سب کچھ دیدیا تھا، شاید ہی کسی کو اتنی شہرت ملے، مجھے جتنی ضرورت تھی اتنا پیسہ میرے پاس تھا، مجھے آج بھی کسی چیز کی ضرورت نہیں، اللہ نے سب کچھ دیا ہے۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم آزاد پاکستان میں پیدا ہونیوالی پہلی جنریشن تھے، بار بار بتاتا ہوں کہ میرے والدین غلامی اور انگریز کے دور میں پیدا ہوئے، انہوں تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا وہ مجھے احساس دلاتے تھے کہ میں خوش قسمت ہوں آزاد ملک میں پیدا ہوا، تمہیں نہیں پتہ کہ غلامی کیا ہوتی کچھ بھی کرلو ایک سطح سے اوپر نہیں جاسکتے۔
وزیراعظم نے کہا کہ آزادی خود قوم کی نشانی ہوتی ہے، سیاست میں اس لئے آیا کہ یونیورسٹی میں سیاست پڑھی، دنیا کی تاریخ کا پتہ تھا، پاکستان کا مقصد اسلامی فلاحی ریاست بننا مقصد تھا، 25 سال پہلے سیاست شروع کی تو تین چیزیں بنیاد رکھیں، اول سب کیلئے انصاف، ایسا انصاف جہاں امیر اور غریب میں فرق نہ ہو، دوسرا انسانیت، اسلامی ریاست میں رحم ہوتا ہے جو مدینہ کی پہلی فلاحی ریاست میں تھا، تیسرا خود داری، ایک مسلمان قوم غلام قوم نہیں بن سکتی، جس قوم کا نعرہ پاکستان کا مطلب کیا ہی لاالہ الاللہ تھا، اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ سوائے اللہ کے کسی کے سامنے نہیں جھک سکتے، اللہ کو سب سے بری چیز شرک لگتی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اپنے منشور میں یہی تین چیزیں رکھیں، لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان سیاست میں اسلام کو کیوں استعمال کرتے ہیں، مجھ میں اللہ ایمان نہ ڈالتا تو میں سیاست میں کیوں آتا، جس آدمی کے پاس سب کچھ ہو وہ اپنی زندگی کے 22 سال کیوں اس کوشش میں تھوڑے سے لوگوں کے ساتھ خرچ کریگا، 14 سال تک تو میرا مذاق اڑتا تھا، بہت لوگوں نے کہا کہ آپ کو سیاست میں آنے کی کیا ضرورت تھی، کیا نظریے اور بڑے مقصد کیلئے سیاست میں نہیں آنا چاہئے۔
عمران خان نے کہا کہ میں نے پاکستان کی اونچ نیچ دیکھی ہے، ایک وقت تھا جب پاکستان تیزی سے اوپر جارہا تھا، جنوبی کوریا پاکستان سے سیکھتا تھا، مڈل ایسٹ کے شہزادے یہاں پڑھنے آتے تھے، میں نے اسے نیچے آتے اور اپنے ملک کو ذلیل ہوتے دیکھا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ جب سے سیاست شروع کی ہے ہمیشہ کہا ہے کہ نہ میں کسی کے سامنے جھکوں گا اور نہ ہی اپنی قوم کو کسی کے سامنے جھکنے دوں گا یعنی اپنی قوم کو کسی کی غلامی نہیں کرنے دوں گا، کبھی اپنے اس مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹا۔
انہوں نے کہا کہ اقتدار ملا تو فیصلہ کیا کہ خارجہ پالیسی آزاد ہوگی، اس کا مطلب ہے وہ پالیسی جو پاکستانیوں اور ہمارے مفادات کیلئے ہوگی، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی سے دشمنی کریں گے، ہم کسی کیخلاف ہوں گے، اینٹی امریکا، اینٹی یورپ یا اینٹی امریکا ہوں گے، بھارت میں کرکٹ کی وجہ سے میری بہت زیادہ دوستیاں تھیں، امریکا کو بھی اچھی طرح جانتا ہوں، انگلینڈ کرکٹ کی وجہ سے میرا دوسرا گھر تھا۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ میں کبھی کسی معاشرے کیخلاف نہیں ہوسکتا، ان کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرتا ہوں، پرویز مشرف دور میں بھی ہمیشہ کہا کہ اس جنگ سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں، نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، کسی کی جنگ میں اپنے ملک کو شامل کرنے کی ضرورت نہیں، دہشت گردی کیخلاف ان کی مدد کرنی چاہئے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستانیوں کو کسی کی جنگ میں قربان کردیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ 80ء کی دہائی میں سرد جنگ میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی ہونے کے باوجود جنگ کے خاتمے کے صرف 2 سال بعد امریکا نے ہم پر پابندیاں لگادیں، نائن الیون کے بعد ایک بار پھر امریکا کو ہماری ضرورت پڑی، دہشت گردی کیخلاف ایکشن کے حامی تھے ہم نے حمایت کی لیکن امریکا کے کسی ایک اتحادی ملک نے بھی اتنی بڑی قربانی نہیں دی جتنی پاکستان نے دی، اپنے 80 ہزار لوگ مروائے، اس کا پاکستان کو کوئی صلہ نہیں ملا، شکریہ تک ادا نہیں کیا گیا بلکہ یہ آوازیں آنا شروع ہوگئیں کہ پاکستان کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے وہ نہیں جیت سکے، بار بار ڈو مور کا مطالبہ کیا گیا، پاکستان میں ڈرون حملوں میں مدرسے کے بچے اور شادیوں میں لوگ مارے گئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ افغان جنگ کے حوالے سے ہمیشہ ہماری پالیسیوں اور ڈرون حملوں کی مخالفت کی، ان پر دھرنے دیئے، کسی سیاسی قیادت نے اس پر کوئی بات نہیں کی، خوفزدہ اور ڈرے ہوئے ہیں کہ کہیں امریکا نہ ناراض ہوجائے، کس قانون میں لکھا ہے کہ آپ جس کا ساتھ دے رہے ہیں وہی آپ کے ملک میں حملے کرے، خود فیصلہ کرے کہ کون دہشت گرد ہے، کوئی تحقیق نہ ہو کہ مرنے والا بے قصور تھا یا واقعی دہشت گرد، ہماری حکومت نے پوری طرح اس جرم میں شرکت کی۔
وہ کہتے ہیں کہ جب حکومت ملی تو پہلے دن سے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پاکستان کے لوگوں کیلئے ہوگی، ایسی پالیسی نہیں بنائیں جس سے دوسروں کو فائدہ اور خود کو نقصان پہنچے، یہ کسی کیخلاف نہیں تھی، نہ اینٹی امریکا، اینٹی یورپ بلکہ اینٹی بھارت بھی نہیں تھی، بھارت نے جب 5 اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کا بین الاقوامی قانون توڑا تب ان کیخلاف ہر فورم پر بات کی، اس سے قبل بھارت سے دوستی کی پوری کوشش کی گئی۔
وزیراعظم نے بتایا کہ 7 مارچ کو ایک ملک کی جانب سے پیغام ملا، یہ پیغام وزیراعظم کیخلاف ہی نہیں پوری قوم کیخلاف ہے، عدم اعتماد سے قبل ہی انہیں پتہ چل گیا کہ اپوزیشن عدم اعتماد لارہی ہے، اس کا مطلب اپوزیشن کے پہلے سے باہر کے لوگوں سے رابطے تھے، وہ کہتے ہیں کہ صرف عمران خان کیخلاف ہے، اگر عمران خان تحریک عدم اعتماد ہار جاتا ہے تو ہم پاکستان کو معاف کردیں گے، اگر تحریک ناکام ہوگئی تو پاکستان کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ ریکارڈڈ اور آفیشل ڈاکیومنٹ ہے، یہ بھی کہا گیا کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہا تو آپ سے تعلقات خراب ہوجائیں گے اور آپ کو مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اپنی 22 کروڑ کی قوم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہماری یہی حیثیت ہے کہ ایک باہر کا ملک بغیر وجہ بتائے ایسا کرے جیسے روس جانے کا عمران خان نے اکیلے فیصلہ کیا ہو، حالانکہ روس جانے کا فیصلہ عسکری اور وزارت خارجہ سے مشاورت کے بعد ہوا، مگر اس میں لکھا ہوا کہ یہ صرف عمران خان کی وجہ سے گئے ہیں، جب تک وہ ہے ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہوسکتے، دراصل وہ یہ کہہ رہے کہ ہمیں دیگر کسی سے کوئی مسئلہ نہیں، قوم کے سامنے یہ چیز رکھنا چاہتا ہوں کہ دیگر ممالک کے سربراہ بھی روس گئے لیکن ہمیں اس طرح کہا جارہا ہے جیسے ہم ان کے نوکر ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس میں سب سے پریشان کن چیز ہے کہ ان کے رابطے ان لوگوں سے ہیں جن کے ذریعے یہ ساری سازش ہوئی ہے اور وہ (تھری اسٹوجز، وفادار غلام) یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ یہ اقتدار میں آجائیں، میرا سوال ہے کہ یہ ملک اپنے ہاں ایسے لوگوں کو اقتدار میں لائے گا جن پر کرپشن کے بڑے بڑے کیسز ہوں، ایک مجرم جھوٹ بول کر باہر بیٹھا ہوا ہے، ان پر بی بی سی نے رپورٹس بنائیں، یورپ ایک جھوٹ پر وزیراعظم کو نکال دیتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں دھمکانے والوں کو ان کرپٹ لوگوں کی ایک ایک چیز کا پتہ ہے، ان کے بینک اکاؤنٹس اور جائیدادوں کی پوری تفصیلات ان کے پاس ہیں، آخر ان کی کیا خاصیت ہے جو انہیں پسند آگئی، پرویز مشرف دور میں 11 ڈرون حملے ہوئے جبکہ ان دونوں کے ادوار میں 400 ڈرون حملے ہوئے، دونوں کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا، انہیں ایسے ہی لوگ پسند آتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ایبسولوٹلی ناٹ کہہ کر بڑی غلطی کی، میں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہم آپ کے ساتھ امن میں ہیں، جنگ میں نہیں، ہم آزاد خارجہ پالیسی چاہتے ہیں، ثالث کا کردار ادا کرنا آپ کی ساکھ ہوتی ہے یہ تب ہوتی ہے جب لوگ آپ کی پالیسی کو آزاد سمجھیں، جب لوگ پہلے سے سمجھتے ہیں کہ آپ نے وہی کرنا جو آپ کو حکم آئے، جب آپ ڈرون حملوں میں اپنے لوگوں کے مرنے کی فکر نہیں تو دنیا میں آپ کی کیا ساکھ ہوگی۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ میں کسی کیخلاف نہیں، میری ذمہ داری 22 کروڑ عوام ہیں، میں ان کیلئے خارجہ پالیسی بناؤں گا، شہباز شریف کا اقتدار میں آنے کا مقصد ہی کچھ اور ہے، جب بمباری ہورہی تھی کب آپ نے اور نواز شریف نے لوگوں کیلئے آواز اٹھائی، کہتے ہیں کہ یو دستاویز ٹھیک نہیں اگر سچ ہوتی تو میرے ساتھ آجاتے، آج قومی سلامتی کمیٹی میں رکھی گئی کیوں نہیں آئے اسے دیکھنے کیلئے، اس دستاویز میں اس سے بھی زیادہ خوفناک چیزیں ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اتوار کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی، جس میں ملک کا فیصلہ ہوگا کہ ملک کس طرف جائے گا، کیا وہی غلامانہ پالیسی اور کرپٹ لوگ ہوں گے، ہماری بدقسمتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہمارے نظام انصاف میں اتنی صلاحیت نہیں کہ طاقتور مجرم کو قانون کے نیچے لاسکے، اربوں روپے کے کیسز کے باوجود ان کیخلاف کچھ نہیں ہورہا۔
ان کا کہنا ہے کہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے ملک خراب کردیا، میں تو ساڑھے 3 سال سے ہوں، آپ تو 30 سال سے باریاں لے رہے ہیں، کیا حالات ساڑھے 3 سال میں خراب ہوگئے، چیلنج کرتا ہوں آزاد ماہرین کو بلا کر چیک کرواں جو ہمارے دور میں ان کے کسی بھی دور میں نہیں ہوا، اب قوم کو فیصلہ کرنا ہے کہ اتوار کو کون کہاں جائے گا۔
عمران خان نے کہا کہ مجھے استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا گیا، میں آخری گیند تک مقابلہ کرتا ہوں، کبھی ہار نہیں مانی، ووٹ کا جو بھی نتیجہ ہو اس کے بعد زیادہ طاقتور ہوکر سامنے آؤں گا، چاہتا ہوں کہ ساری قوم دیکھے کہ کون جاکر اپنے ضمیر کا سودا کرے گا، جب بھی آپ کو پتہ چلا تھا کہ عمران خان برا ہے تو آپ کو استعفیٰ دینا چاہئے تھا، ایسا تب نہیں کرتے جب 20، 25 کروڑ روپے دیا جارہا ہو۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ میریٹ اور سندھ ہاؤس میں تماشہ چل رہا ہے، ساری قوم کے سامنے لوگوں کو چوری کے پیسے سے خریدا جارہا ہے، کوئی نہیں مانے گا کہ ان تین (نواز شریف، آصف زرداری اور فضل الرحمان) کے پاس یہ اس لئے جارہے ہیں کہ یہ نظریاتی لوگ ہیں، سب ان کو جانتے ہیں، ان کے ایک دوسرے کیخلاف دیئے گئے 20 سال کے بیانات دیکھ لیں، یہ صرف ضمیروں، ملک اور خود مختاری کا سودا ہورہا ہے۔
عمران خان نے اپنے منحرف اراکین سے ایک بار پھر کہا کہ مجھے اب بھی آپ سے امید ہے، ہمیشہ کیلئے آپ پر مہر لگ جائے گی، لوگ آپ کو کبھی بھولیں گے نا معاف کریں گے، لوگ یاد رکھیں گے کہ آپ نے ملک کا سودا کیا، آزاد خارجہ پالیسی والی حکومت کو گرانے کی بیرون ملک سازش کا حصہ بنے، میر جعفر اور میر صادق نے ذاتی مفادات کیلئے اپنی قوم کو غلام بنوایا، یہ لوگ موجودہ دور کے میر جعفر اور میر صادق ہیں۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دوں گا، میرا یہ اپنی قوم سے وعدہ ہے، مجھے کوئی فرق نہیں پڑیگا، اپنا گھر ہے، خرچہ خود اٹھاتا ہوں، میں نے کوئی فیکٹریاں نہیں بنائیں، نواز شریف نے اتنے عرصے میں 18 فیکٹریاں بنالی تھیں، میرا کوئی رشتہ بھی سیاست میں نہیں، اپنے گھر میں رہوں گا۔
انہوں نے کہا کہ قوم سے کہتا ہوں کہ جو غداری ہونے جارہی ہے، ایک ایک غدار کی شکل یاد رکھیں، انہیں کہتا ہوں کہ قوم آپ کو اور آپ کے پیچھے جو لوگ ہیں انہیں معاف نہیں کریگی، کسی خوش فہمی میں نہ رہیں عمران خان چپ کر کے نہیں بیٹھے گا، ساری زندگی مقابلہ کیا ہے، میں وہ نہیں کہ کسی نے پرچی دکھائی اور پارٹی وراثت میں مل گئی یا میرا باپ کوئی بڑا آدمی تھا، مجھے جدوجہد اور مقابلہ کرنا آتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد اور غیر ملکی دھمکی آمیز خط سے متعلق قوم سے خطاب کررہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے قوم سے خطاب سے قبل کلام پاک کی بمعہ ترجمہ تلاوت کی گئی جس کے بعد قومی ترانے کی دھن پیش کی گئی۔
from SAMAA https://ift.tt/v1HIDXA
No comments:
Post a Comment