
سندھ میں بلدیاتی نظام اور میئر کے اختیارات پر صوبائی حکومت اور کراچی کی نمائندہ جماعتوں کے درمیان ہمیشہ سے اختلافات اور تنازعات رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے میئر عبدالستار افغانی سے لیکر ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر تک بلدیاتی اختیارات کی جنگ رہی ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی سندھ اسمبلی میں عددی اکثریت کی بنیاد پر ایسے قانون منظور کرتی رہی ہے، جس کی وجہ سے تنازعات اور اختلافات میں شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے امتیازی اور متنازع قوانین پر شہری سندھ کے عوام احتجاج کرتے رہے ہیں لیکن ان کی شنوائی کبھی نہیں ہوئی۔
بلدیاتی نظام پر اختلافات اُس وقت زیادہ شدت سے سامنے آئے جب جولائی 2013ء میں پیپلز پارٹی نے 2001ء کے بلدیاتی نظام کی جگہ سندھ میں 1979ء کا بلدیاتی نظام بحال کرنے کے بعد شہری حکومتیں اور ٹاؤنز ختم کرکے ضلع کونسل، تعلقہ کونسل اور یونین کونسل قائم کردیں۔ اس قانون کے تحت میئر کراچی سے وہ تمام اختیارات چھین لئے گئے جو اُسے 2001ء کے بلدیاتی قانون کے تحت میسر تھے۔ 2001ء کے بلدیاتی نظام کی وجہ سے متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی اور حیدرآباد میں سیاسی اور انتظامی گرفت مضبوط کی تھی، اس لئے اِن کی خواہش اور کوشش تھی کہ 2001ء کا بلدیاتی نظام برقرار رکھا جائے جبکہ پیپلزپارٹی کسی طور پر 2001ء کا بلدیاتی نظام نافذ کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔
فروری 2013ء میں متحدہ قومی موومنٹ نے پیپلز پارٹی کی حکومت سے علیحدگی اختیار کی، جس کے بعد صوبائی حکومت نے بلدیاتی نظام کا ترمیمی بل 2013ء منظور کرلیا، 2013ء سے 2021ء تک بلدیاتی نظام ایک بے اختیار میئر اور ایڈمنسٹریٹر کے تحت چلتا رہا، یہی وجہ تھی کہ میئر کراچی وسیم اختر اپنے 4 سالہ دور میں یہی شکایت کرتے ہوئے نظر آئے کہ ان کے پاس اختیارات نہیں، وہ ایک بے بس اور بے اختیار میئر ہیں۔
پیپلزپارٹی نے میئر کراچی کے مالیاتی اور انتظامی اختیارات میں اضافہ کرنے کی بجائے 26 نومبر کو سندھ اسمبلی نے بلدیاتی نظام سے متعلق ترمیمی بل 2021ء کثرت رائے سے منظور کیا، جس کے تحت میئر کے اختیارات کو نا صرف مزید کم کیا گیا بلکہ نئے بلدیاتی نظام کے تحت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے زیر انتظام میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سمیت عباسی شہید اسپتال، سوبھراج اسپتال، لیپروسی سینٹر اور سرفراز رفیقی اسپتال کا انتظام سندھ حکومت سنبھالے گی، تعلیم اور صحت کا شعبہ بھی بلدیاتی اداروں سے واپس لے لیا گیا۔
ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، پاک سر زمین پارٹی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے ان ترامیم کو مسترد کیا اور اسے ’’کالا قانون‘‘ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا جبکہ جماعت اسلامی نے ’کالے قانون‘ کی منسوخی کیلئے سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئی، حکمران جماعت کے نمائندوں نے جماعت اسلامی سے ملاقات کی اور دونوں جماعتوں کے درمیان ایک معاہد طے پایا، جس کے بعد جماعت اسلامی نے 29 کا دھرنا ختم کردیا۔ ایک جانب جماعت اسلامی نے اپنے دھرنے اور معاہدے کو اپنی کامیابی قرار دیا تو دوسری طرف ایم کیو ایم نے معاہدے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے جماعت اسلامی کو ’’ماموں‘‘ بنادیا ہے۔
جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے معاہدے سے ایک روز قبل ایم کیو ایم نے ریلی نکالنے اور کراچی پریس کلب پہنچنے کا اعلان کیا لیکن اچانک وزیر اعلیٰ ہاؤس پہنچ گئے اور وہاں پہنچ کر دھرنا دینے کا اعلان کردیا۔ پیپلز پارٹی اور سندھ انتظامیہ نے ایک گھنٹے میں مظاہرین کو منتشر تو کردیا لیکن اس ایک گھنٹے میں ٹی وی اسکرین نے وہ منظر پیش کئے کہ ایم کیو ایم (پاکستان) کے مخالفین بھی ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے نظر آئے۔ پولیس نے جس طرح ایم کیو ایم کی خواتین اور ممبر صوبائی اسمبلی کو بربریت اور تشدد کا نشانہ بنایا، ایم کیو ایم جو اس پورے گیم میں بہت کمزور کھلاڑی نظر آرہی تھی، پورے میڈیا کی نظریں ان پر جم گئیں مگر پیپلز پارٹی نے انتہائی ہوشیاری سے ایک جانب جماعت اسلامی سے مذاکرات کرکے ایم کیو ایم کو پشت پر دھکیل دیا تو دوسر ی طرف ٹی وی اسکرین پر دکھائے جانے والے مناظر نے پیپلز پارٹی کو مجبور کیا کہ وزیراعلیٰ سندھ، ایم کیو ایم کے ممبر صوبائی اسمبلی اور اس واقعے کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے اسلم کے گھر پہنچ گئے اور یوں ایم کیو ایم کی طرف سے کی جانے والی یوم سوگ اور احتجاج کی کال بے اثر ہوگئی، مارکیٹیں اور دکانیں بند کرانے کی تمام اپیلیں بے اثر اور بے نتیجہ رہیں۔ ایم کیو ایم کا یوم سیاہ پر احتجاج کی کال کا بے اثر ہونا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ماضی میں جس طرح ایم کیو ایم کی ایک کال پر شہر بند ہوجاتا تھا موجودہ ایم کیو ایم کی شہر پر گرفت انتہائی کمزور ہوچکی ہے۔
بلدیاتی قوانین کیخلاف پاک سر زمین پارٹی نے 30 جنوری کو فوارہ چوک پر دھرنا دیا، اس موقع پر سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے جائیں گے، اس وقت تک ان کا دھرنا جارہی رہے گا۔ لیکن دھرنے کے پہلے ہی دن سندھ حکومت نے پی ایس پی سے رابطہ کرلیا۔ مذاکرات کا دور شروع ہوا، پاک سرزمین پارٹی اور سندھ حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوئے تو چیئرمین پی ایس پی مصطفیٰ کمال نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے دھرنا ختم نہیں 18 فروری تک مؤخر کیا ہے، 11 سے 18 فروری کے درمیان قانون سازی ہوگی۔
ابھی جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور پاک سرزمین پارٹی کے دھرنے کی باز گشت جاری تھی کہ اچانک سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنی ملازمت کے آخری دن ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ ماسٹر پلان بنانا اور اس پر عملدرآمد کرنا بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات ہیں، اور کہا کہ بلدیاتی حکومت کے تحت کوئی نیا منصوبہ صوبائی حکومت شروع نہیں کرسکتی، آئین کے تحت بلدیاتی حکومت کو مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات یقینی بنائے جائیں، سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کی شق 74 اور 75 کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایکٹ، کے ڈی اے، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور حیدر آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قوانین بھی آئین کے مطابق ڈھالنے کا حکم دیا۔ یاد رہے کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی جانب سے درخواستیں 2017ء میں دائر کی گئی تھیں۔ سپریم کورٹ نے 26 اکتوبر 2020ء کو بلدیاتی اختیارات کے حصول کے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا اور فروری 2022ء میں فیصلہ سنایا۔ ایم کیو ایم اس فیصلے کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے اور جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی سے معاہدے کو اپنی فتح قرار دے رہی ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا پیپلز پارٹی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرے گی؟ کیا پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور پاک سر زمین سے کئے گئے وعدے پورے کرے گی؟، جس مقصد کیلئے اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج، مظاہرے اور دھرنے دیئے کیا ان مطالبات پر حکومت سندھ عملدرآمد کرے گی؟، موجودہ صورتحال میں ایسا ہوتا ہوا مشکل نظر آرہا ہے۔
اس وقت تمام بلدیاتی ادارے بشمول واٹر بورڈ، ماسٹر پلان، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سندھ حکومت کے ماتحت ہیں، پیپلز پارٹی کراچی کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو اُسے نہ تو بلدیاتی قانون میں تبدیلی کرنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی بلدیاتی اداروں کو سندھ حکومت کا حصہ بنانے کی ضرورت تھی۔ 2009ء سے لیکر 2022ء تک بلدیہ عظمیٰ کراچی پر پیپلز پارٹی کے لگائے ہوئے ایڈمنسٹر تعینات رہے، ان 12 سالوں میں سے صرف چار سال وسیم اختر، میئر کراچی تھے جو مسلسل حکومت سندھ سے اختیارات مانگتے رہے، ایک سال ہونے کو آرہا ہے ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب جو پیپلز پارٹی کے اہم رہنماء ہیں وہ بھی حال کراچی کی تعمیر وترقی، صفائی ستھرائی، ٹرانسپورٹ، پانی کی فراہمی، بلدیہ ملازمین کی پنشن اور بقایا جات کی ادائیگی جیسے اہم ایشوز کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے جماعت اسلامی اور پاک سر زمین پارٹی سے جو معاہدے کئے ہیں کیا وہ اس پر عمل کرے گی، یا پھر پیپلز پارٹی نے دونوں جماعتوں کے ساتھ ہاتھ کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی تاریخ اور ماضی تو یہ رہا ہے کہ وہ اپنے وعدوں اور معاہدوں پر عمل کرنے کی بجائے ان سے انحراف کرتی رہی ہے، اس کی ایک نہیں کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کو بھی ’’ماموں‘‘ بنا چکی ہے، جس کی تازہ مثال یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کرانا اور پھر انہیں سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنانا ہے۔ کراچی میں تمام جماعتیں بلدیاتی قانون کی تبدیلی اور میئر کے اختیارات کی تو بات کرتی ہیں مگر ان جماعتوں کے درمیان آپس میں ہی اختلافات اس حد تک ہیں کہ کسی ایک جماعت کے کامیاب مذاکرات اور دھرنے کو دوسری جماعت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں، ایک منتشر اپوزیشن اور بکھری ہوئی جماعتیں کس طرح پیپلز پارٹی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتی ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ابھی یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھے کیلئے تیار نہیں ہے۔
from SAMAA https://ift.tt/5uGwLXt
No comments:
Post a Comment